تجارتی رکاوٹیں دورکی جائیں

انگوراڈا گیٹ پر کچھ عناصر کی سازش کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں گھٹنے سے ملکی خزانے کو روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ہمارے نمائندے کے مطابق ماضی میں انگوراڈاگیٹ پر روزانہ 200 سے 300 مال بردار گاڑیوں کی آمدورفت ہوتی تھی جو اب صرف 20اور 25 کے قریب رہ گئی۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انگوراڈا روڈ پر ایک منظم سازش کے تحت رکائوٹیں پیدا کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے کاروباری لوگوں نے دوسرے تجارتی راستوں چمن، خرلاچی اور طور خم سے تجارت شروع کردی جس کے باعث انگوراڈا گیٹ پر تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیںاور مقامی تاجروں کا کاروبار سخت متاثر ہو رہا ہے مقامی تاجروں کی جانب سے معاملہ انتظامیہ اور پولیس آفیسرز کے نوٹس میں لانے کے باوجوداب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا گیا۔تاجروں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاک افغان شاہراہ پر رکائوٹیں کھڑی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے انگوراڈا گیٹ پر تجارتی سرگرمیاں دوبارہ سے بحال کی جائیں اس طرح کی صورتحال کی نوبت نہیں آنے دینا چاہئے تھا بہرحال۔یہ امرباعث تشویش اور فوری توجہ کا حامل ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے فروغ کی مساعی کی بجائے اس میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے مبہم طور پر جس قسم کی صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے اس سے اس امر کا اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ تجارت میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے عناصر کون ہو سکتے ہیں بہرحال اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ با اثر عناصر ہیں لیکن خواہ وہ جتنے بھی بااثرکیوں نہ ہوں حکومت اور انتظامیہ پربھاری نہیں ہوسکتے تجارت میں خلل ڈالنے کے عمل کوکسی ملی بھگت کاشاخسانہ بھی نہیںقراردیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے کسی کامفادوابستہ ہوسکتا ہے اس کے باوجود رکاوٹیں کیوںکھڑی کی جارہی ہیں اس سے قطع نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ تجارت کی بحالی اور تاجروں کو آزادانہ طور پر مال لانے اور لے جانے کے لئے سہولیات کی فراہمی اور تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا فروغ سرحدوں کے آر پار ہر دو اقوام کا مفاد ہے تجارت کافروغ دونوں ملکوں کی ضرورت بھی ہے ضلعی انتظامیہ کو اس صورتحال کافوری نوٹس لینے اور تجارت کی بحالی یقینی بنانے کی ضرورت ہے نیز اس ضمن میں اگر ضرورت پڑے تو وزارت دفاع اور وزارت داخلہ سے بھی مدد لینے سے دریغ نہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام