وجے لکشمی کی محبت کا قصہ

ایک کشمیری برہمن خاندان جب دہلی آکر نہر کے کنارے آباد ہوا تو اس کی پہچان نہرو خاندان کے نام سے ہوئی ۔ اس خاندان نے ہندوستان کی سیاست میں اپنی دھاک بٹھائے رکھی ۔ جہاں ان کے افراد سیاست کے میدان میں شہرہ آفاق ہوئے وہاں اپنی عشقیہ داستانیں بھی رقم کر گئے ۔ موتی لال نہرو کا شمار صف اول اور دولت مند قانون دان کے طور پر ہوتا۔ اُسے مغربی تہذیب سے بڑا لگاو تھا ، اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو تعلیم کے لیے یورپ بھیجا اور بیٹی وجے لکشمی کی تعلیم و تربیت کے لیے انگریز گورنس رکھی ۔ جواہر لال ایک مدبر سیاست دان ہونے کے ساتھ جاذب نظر اور دلکش عوامی شخصیت کے مالک تھے ۔ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماونٹ بیٹن کی بیوی ایڈوینا کے ساتھ ان کے رومان انگیز تعلقات پر انگریزمصنفہ ایلکس زیمن نے ‘انڈین سمر’ کے عنوا ن سے کتاب لکھی ہے ۔ جواہر لال کی اکلوتی بیٹی اندرا نے بھی فیروز گاندھی سے اپنی محبت کے آگے خاندانی اصولوں اور مذہبی رسموں کی پرواہ کیے بغیر اپنا سہاگ مکمل کیا ۔اسی طرح جواہر لال کی بہن وجے لکشمی بھی اپنی چاہت اور عشق و محبت میں لا زوال ٹھہری ۔ پنڈت موتی لال الہ آباد سے ایک انگریزی اخبار ” انڈی پنڈت ” نکالا کرتے تھے ۔ اُنہوں نے کلکتہ کے رہنے والے ایک نو جوان سید حسین کی انگریزی زبان میں مہارت کے بارے سنا تو اُسے اخبار کا ڈپٹی ایڈیٹر مقرر کر لیا ۔ اپنا بیٹا جواہر بس نام کا ایڈیٹر تھا ،سارا کام اب یہی نوجوان ہی کیا کرتا۔ یہ تیس سالہ سید حسین بڑا خوبرو اور خوش گفتار تھا ۔ جب موتی لال کی انیس سالہ بیٹی نے اسے دیکھا تو اپنا دل دے بیٹھی ۔ سید حسین مسلمان تھا اور یہی بات وجے کو سمجھاتا رہا کہ ایک ہندو لڑکی کے ساتھ اس کی شادی نہیں ہو سکتی ۔ مگر وہ دیوانی ہو چکی تھی اور اُسے پانے کو اسلام قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہو گئی۔ جب لکشمی نے شادی نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کرنے کی دھمکی دی تو سید حسین بھی موم ہو گیا ۔ اُس نے وجے کو ساتھ لیا جس نے مولانا سید فاخر حسین الہ آبادی کے ہاتھوں اسلام قبول کیا ۔ اس کے بعد دونوں کا نکاح ہوا ، یوں وجے لکشمی سے وہ عائشہ حسین ہو گئی ۔ سید حسین نے موتی لال کے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر کلکتہ آ گئے ۔ یہاں وہ ”کامریڈ ” کے ایڈیٹر بن گئے ۔ ہندوستان میں وجے لکشمی کے مسلمان ہونے اور شادی کی خبر آناً فاناً پھیل گئی تھی ۔
نہرو خاندان کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی ، ولبھ بھائی پٹیل اور ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنا سر پیٹ لیا ۔ ان میں شری راج گوپال اچاری تنہا تھے جس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس میں سیکولر قانون موجود ہے ، لکشمی کے مسلمان ہونے کا غم نہ کر یں ورنہ کانگریس ہی توڑ ڈالو ۔ یہ وہی راج گوپال تھے جو ماونٹ بیٹن کے بعد آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل بنے لیکن مسّلہ کشمیر پر نہرو سے اختلاف ہوا تو سال بعد مستعفی ہو گئے تھے ۔ مہاتما گاندھی نے اس شادی کے مسّلہ پر موتی لال اور جواہر لال سے خفیہ صلاح مشورے کیے ۔ اُنہوں نے منصوبہ کے مطابق اس شادی پر رضا مندی کے لیے سید حسین کے سامنے انگریزی میں امریکہ سے پی ایچ ڈی کرنے کی شرط رکھی اور ساتھ ہی خرچہ اٹھانے کی حامی بھری ۔ دراصل چال یہ تھی کہ جونہی وہ امریکہ چلا جائے تو موتی لال فوراً اپنی بیٹی کو کسی ہندو سے بیاہ دیں گے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ بابو راجندر پرشاد کو بھی امریکہ جانے کے لیے تیار کیا کہ وہاں امریکی حسینائیں سید حسین کی قربت میں آکر اُسے واپس ہندوستان نہ آنے دیں ۔
مہاتما اپنی چال میں کامیاب ہوئے ، سید حسین نیو یارک چلے گئے ۔ عائشہ ( وجے لکشمی ) بڑی روئی اور شوہر کو جانے سے آخری وقت تک روکتی رہی ۔ ایک سال بعد سب نے مل کر اپنی لکشمی کو سمجھایا کہ اُسے بھارت ماتا کی آزادی کے لیے سیاسی کردار ادا کرنا ہے ، آزادی کے بعد یو پی کی گورنر بنو گی لہذا سید حسین کا خیال چھوڑ دو ۔ وجے لکشمی نے خوب انکار کیا مگر اس کی شادی زبردستی رنجیت سیتا رام ایڈووکیٹ سے کر دی ۔ بیگم عائشہ حسین پھر ہندو ہو گئی ۔ اُدھر سید حسین نے ڈیڑھ سال میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اور راجندر پرشاد کی سازش سے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اُسے ہندوستانی تاریخ و ثقافت کا پروفیسر مقرر کر دیا گیا ۔ وقت گزرتا رہا ، لکشمی کے ہندو شوہر کو کسی ذریعہ سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اب بھی ڈاکٹر سید حسین سے عشقیہ خط وکتابت کرتی ہے ۔ اس صدمہ سے بیمار رہنے لگا اور پانچ سال کے عرصہ میں انتقال کر گیا ۔ باپ فوت ہو چکا تھا ، بھائی جواہر لال انگریز کی قید میں تھا ، اب بیوہ ہوئی تو موقع ملتے ہی لکشمی امریکہ چلی گئی ۔ وہاں دونوں محبت کرنے والے آپس میں ملے ، بے وفائی کے طعنے دئیے اور یکجا ہونے کو لکشمی پھر مسلمان ہو گئی ۔ آزادی سے قبل جواہر لال کے کہنے پر دونوں واپس لوٹ آئے ۔ آزادی کے بعد عائشہ حسین روس میں اور ڈاکٹر سید حسین مصر میں بھارت کے سفیر مقرر ہوئے ۔ سال 1951میں ڈاکٹر سید حسین کا انتقال ہوا تو قریبی دوست جمال عبدالناصر کے مشورہ سے اُنہیں قاہرہ ہی میں دفن کر دیا گیا ۔ عائشہ اپنے شوہر کی قبر سے لپٹی اور اتنا روئی کہ دیکھنے والے تھرا اُٹھے ۔ شوہر کا مزار بنایا، روس واپس آئی اور بطور سفیر استعفیٰ دیا۔ پھر آخری وقت تک اپنے بھائی جواہر لال کے پاس ہی رہی ۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟