باشندگان چترال کی دُہائی

تحریک تحفظ حقوق چترال کے زیر اہتما م پشاور پریس کلب کے سامنے ضلع چترال کے مختلف مقامات پر سڑکوںکی خستہ حالی، طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ، علاقے میں غیر قانونی مائننگ اور چترال کے عوام کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ ضلع چترال بالا اور چترال پائیں میں خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے لوگوں کو آمد ورفت میںشدید مشکلات کا سامنا ہے صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے تمام تر دعوئوں کے باوجود ضلع چترال بالا اور چترال پائیں میں سڑکوں کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی گئی خستہ حال سڑکوں کے ساتھ ساتھ عوام کو طویل لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا ہے نیز چترال میں غیر قانونی مائئنگ اور مائین سائٹس کی غیر مقامی افراد کو لیز کرنے سے مقامی لوگوں کے حقوق ملکیت متاثر ہوئے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ ضلع چترال کے عوام کے دیرینہ مطالبات کے حل پر فوری توجہ دی جائے۔اہالیان چترال کوہر دور حکومت میںمحرومیوںکی شکایت رہتی ہے علاقے کے عوام کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے چترال میں بیداری کی لہر اور احتجاج قابل توجہ امور ہیں بہت سے مسائل کے حوالے سے عدالت سے رجوع سے لے کر عوامی فورمز پر آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی، بہرحال قبل ازیں اہالیان چترال کاواحد مطالبہ لواری ٹنل کی تعمیر کا ہوا کرتا تھاجس کی پوری طرح تکمیل ابھی بھی باقی ہے البتہ آمدورفت بحال ہونے سے اس حوالے سے حساسیت اورمطالبات کارخ دیگر مسائل کی طرف ہوگیا ہے اور اگردیکھا جائے تو اہل علاقہ کاابھی بھی بنیادی اور بڑامطالبہ ذرائع مواصلات اور آمدورفت ہی کا ہے دعوے کی حد تک تو مرکزی حکومت اور سابق صوبائی حکومت چترال میں مواصلات کے نظام کی بہتری اورترقی کی دعویدار رہی ہیں مگر چترال کی سڑکوں کی حالت زبان حال سے پکار پکار کر ان کے دعوئوں کی نفی کرتی ہے چترال میں سیاحت کی ترقی کے لئے سڑکوں کی تعمیر کی توقع ہی عبث ہے اس شدید سردی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج بلاوجہ اس لئے نہیں کہ وہاں پر ایک یہی ذریعہ توانائی و ایندھ میسر ہے حکومت اگراس طرف توجہ نہیں دے گی تو چترال میں جنگلات کا رہا سہا رقبہ بھی سوختنی لکڑی کی نذر ہوجائیگا اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ دیودار اورشاہ بلوط کے ایک پودے کے اگ کر درخت بننے میں سوسال کا عرصہ درکار ہوتا ہے چترال کو ماحولیاتی اثرات سے بچانے کی واحد امید باقی ماندہ جنگلات کے رقبے اور اس کے تحفظ سے وابستہ ہے جس قسم کی صورتحال درپیش ہے اس سے تو خوف آتا ہے ۔ صلح جو قسم کی آبادی کا یوں سڑکوں پر نکلنا اور آئے روزاحتجاج اور مطالبات بلاوجہ نہیں جس پر سنجیدگی سے توجہ اور درپیش مشکلات دور کرنے میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟