فیصلہ تیراتیرے ہاتھوں میں ہے

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ ملک سے فوج کا سیاسی کردار راتوں رات ختم کرنا ممکن نہیں، ذمہ دار جمہوری حکومت اور اختیار فوج کے پاس ہو تو ایسے نہیں چل سکتا سیاسی عدم استحکام کا آغاز تبھی ہوگیا تھا جب ایک آرمی جنرل کی زیر قیادت سازش کے ذریعے اچھی کارکردگی کی حامل حکومت کو ختم کردیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج سے متعلق میرا موقف زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کے سیاسی کردار کو راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس کا آغاز کیا جا سکتا ہے کہ اگر کسی چیز کی ذمہ داری سویلین حکومت کی ہے تو پھر اختیار بھی سویلین حکومت کے پاس ہونا چاہئے۔ برطانوی نشریاتی ادارے سے تحریک انصاف کے قائد کا سنجیدہ موضوعات پر سنجیدہ تبادلہ خیال میںان کی وہ حقیقی سوچ غالب ہے جو ملکی میڈیا میں ان کے بیانات میں نظرنہیں آتا بہرحال یہ انٹرویو لینے والے پربھی منحصر ہوتا ہے کہ وہ مہمان سے کس طرح کے سوالات کرتا ہے بدقسمتی سے ملکی میڈیا سیاسی طور پر منقسم ہونے کاتاثر پیش کرتا ہے اور ایجنڈے پر مبنی انٹرویوز یا پھر مہمان کو اس جانب لے جانے کا رواج بن گیا ہے جو انٹرویو کرنے والے یا ان کے میڈیا گروپ کامقصود ہوتا ہے معروضیت کی ملکی صحافت سے رخصتی سے صحافت میںبھی سیاست در آئی ہے جو صحافت اور صحافتی اداروں سبھی کو نامعتبر بنانے کا سبب بن رہا ہے سابق وزیر اعظم کی بی بی سی سے محتاط اور مدبرانہ گفتگو ملکی میڈیا کے لئے بھی مثال ہے جس کی پیروی کرکے صحافتی اقدار کی بحالی کی خدمت ہوسکتی ہے بہرحال اس سے قطع نظر تحریک انصاف کے قائد کے ایک خاص حوالے سے زاویہ نگاہ اور ماضی قریب میںمحروم اقتدار ہونے والے ایک اور سابق وزیر اعظم کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تودونوںمیں بعد المشرقین ہونے کے باوجود اس معاملے میں حیرت انگیز طورپرخیال نظرآئیں گے۔ یہ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دونوں ایک جیسے تجربات سے گزرے اور دونوں کوایک جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا وطن عزیز میں سویلین بالادستی اور پارلیمان کی وقعت کاسوال پہلی مرتبہ اٹھا ہے بلکہ تقریباً ہر عشرے بعد پیش آنے والے حالات ہرحکمران اور حکومت کو اسی ایک موڑ پرلاکھڑا کرنے کاباعث بنتے ہیں جس سے ایک ہی نتیجے پر پہنچنا اور ایک ہی سوچ کا حامل ہونا فطری امر ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی مخاصمت اتنی بڑھی ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کومحروم اقتدار کرنے واسطے کندھا پیش کرنے میںتعجیل اورسیڑھی لگانے کی سعی میں اصولوںاور سیاست کو بھی فراموش کردیا جاتا ہے سانپ اور سیڑھی کاکھیل جب تک اسی طرح کھیلا جاتا رہے گا ہر سیڑھی چڑھنے والا سوچتے سمجھتے بھی سیڑھی کوغنیمت جانتے رہیں گے اور جب سانپ کی لمبائی کے مساوی واپسی ہو گی جب تک اہل سیاست ہوش کے ناخن نہیں لیں گے شطرنج کی بساط پر محل کے حقیقی مکین بننے اور طاقتور حکمران بننے کی نوبت نہیں آسکتی ملکی سیاسی فضا سیاسی مفاہمت کا ہرلحاظ سے پکار پکار کرمتقاضی ہے جسے سننے اورمتوجہ ہونے کااب بہترین وقت ہے مفاہمت برائے میثاق معیشت سے اس کا اگر آغاز ہو جائے تو ہر فریق قوم اورعوام کے سامنے ہی سرخرو ہوگی بلکہ یہ ملک وقوم کی حقیقی خدمت بھی ہوگی ایساکیا جانا اس مٹی کاقرض بن چکا ہے جسے چکایا جاناچاہئے میثاق معیشت سے میثاق جمہوریت کی راہ خود بخود ہموار ہوگی یہ ملک کے لئے بھی ایک ایسی سیڑھی بنے گی جوملک کودیوالیہ پن کی سرحد سے دور لے جائے گی اس کے بعد سیاسی مفاہمت اور عوام کی رائے کی اکثریت کے بل بوتے پرخالصتاً اقتدار حاصل کی جائے اور سیاستدان ایک دوسرے کے مینڈیٹ کوتسلیم کریں تو شکایت اور محروم اقتدارکئے جانے کے الزامات کی نوبت نہیں آئے گی ہر دو جانب سے ہم خیالی کے باوجود بھی خدشہ اس بات کا ہے کہ اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے میں سبقت کی مساعی میں کمی شاید ہی آئے باوجود اس کے کہ عطار کے لڑکے کے پاس اب دوا مل بھی سکے گی یا انہوں نے دوائے دل بیچ کردکان اپنی بڑھانے کے بعد دکان بند کر دی ہو مگر سیاستدانوں سے بعید نہیں کہ وہ عطار کے لڑکے کی خالی دکان پربھی دستک دینے کہیں نہ پہنچ جائیں۔بال کلی طور پرسیاستدانوں کے کورٹ میں ہے موقع بھی ہے دستور بھی جو بڑھ کر تھام لے مینا اسی کا کا بھی موقع ہے مگر پرانے پاپی ہوں یا نئے خدشہ دوسروں سے نہیں اپنوںہی پراعتبار نہیں جس دن یہ اعتبار قائم ہوگیا اس کے بعد پھرمحولہ قسم کی شکوے شکایات اور اظہار خیال کی پھر نوبت نہیں آئے گی۔دیکھنا یہ ہے کہ ہر فورم پریکساں شکوہ کناں عناصر اور ممکنہ طور پرایک ہی بیانیہ لے کر انتخابات میں جانے والوں کااپنا کردار و عمل کس قدر معتبر ٹھہرتا ہے ۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اب کے مرتبہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کرپیا جائے گا اورماضی کی غلطیوںکودہرانے سے اجتناب ہو گا۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام