مذاکرات کا کشکول

وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے ۔ العربیہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوںنے نہ صرف یہ کہ بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی بلکہ متحدہ عرب امارات کو ثالث کے طور پر قبول کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا ۔العربیہ کی خاتون نے بھارت سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پوچھا تو شہباز شریف نے جھٹ سے کہہ ڈالا کہ بہن یہ تو ہماری بھی خواہش ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ تین جنگوں سے بہت سبق سیکھ لیا ہے ۔اس لئے اگر بھارت کشمیر پر آگے بڑھے تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے ۔ہم دونوں ہمسائے ہیں اور ہمسائیگی اپنی پسند سے اختیار نہیں کی جاتی ہے دونوں کو یہیں رہنا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا براہ راست ردعمل تو سامنے نہیں آیا مگر وزارت خارجہ کے اہلکاروں اور بھارت کے آگ اُگلتے میڈیا کاردعمل حسب ِ روایت منفی ہی تھا۔اسے پاکستان کی کمزور معاشی پوزیشن کا نتیجہ قراردیا گیا ۔شہباز شریف کی طرف جنگوں سے سبق سیکھنے کی بات کو بھارتی میڈیا نے فاتحانہ ٹچ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو تین جنگوں میں جو سبق سکھایا تھا آج شہباز شریف نے اس کا اعتراف کر لیا۔بھارت کی طرف سے اس پیشکش کے ساتھ اسی سلوک کی توقع چنداں غیر متوقع نہیں تھی کہ اس مرحلے پر نریندر مودی پاکستان کے معاملے میں کمزوری دکھا کر اپنی سیاسی اور انتخابی پوزیشن کمزور نہیں کر سکتے۔ بھارت میں کئی ریاستوں کے ساتھ ساتھ عام انتخابات بھی قریب آرہے ہیں ۔ان انتخابات میں نریندرمودی کے پاس ہمیشہ کی طرح ”پاکستان کارڈ ”ہی باقی بچا ہے ۔بھارت کے اپنے اور عالمی ادارے اس کی معاشی ترقی کو عام آدمی کے لئے محض سراب قرار دے رہے ہیں ۔اس دور میں امیرطبقات نے ترقی کی مزید منازل تیزی سے طے کیں جبکہ عام آدمی کی معاشی حالت مزید بگڑ کر رہ گئی۔بھارت کے ایک داخلی ادارے آکسفیم انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی مجموعی دولت کا 40.5فیصد حصہ ایک فیصد امیروں کے پاس ہے جبکہ پچاس فیصد آبادی کے پاس مجموعی دولت کا صرف ایک فیصد حصہ ہے۔اسی رپورٹ کے مطابق 2020ء میںہندوستان میں ارب پتی افراد کی تعداد102تھی جو2021 میں142اور2022ء میں166ہوگئی ۔ اس
کے برعکس 22کروڑ 89لاکھ افراد غربت کا شکار ہیں۔اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غریب طبقے پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ آنے والے انتخابات میں نریندر مودی کے پاس عوام کو معاشی میدان میں دینے کے لئے کچھ زیادہ نہیں لے دے کر پاکستان کارڈ ہی باقی بچتا ہے اور اسی لئے وہ پاکستان کے ساتھ مفاہمت کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ایسے میں جب کانگرس کے رہنما راہول گاندھی بھارت جوڑو یاتر ا چلا کر ان پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں ۔نریندرمودی نے اپنا ٹارزن کا امیج صرف پاکستان کی مخالفت کی بنیاد پر قائم کیا ہے اور اب وہ باقی مدت بھی اسی امیج کے ساتھ گزارنا چاہیں گے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت رواں سال کی مہمان ہے اور اپنے آخری ماہ پورے کر رہی ہے ۔اس غیر یقینی صورت حال میں اوراس مرحلے پر بھارت کی کوئی بھی حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے تار جوڑنا نہیں چاہے گی جبکہ یہ انداز ہ بھی نہیں کہ مستقبل میں سیاسی نقشہ تبدیل ہوتے ہی مذاکراتی عمل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔اس لئے شہباز شریف کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش اور اس کا انجام دونوں دیوار پر لکھے ہوئے ہیں ۔اس انٹرویو میں پانچ اگست 2019ء کے یک طرفہ فیصلے اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں زمینی حقائق کو بدلنے والے اقدامات کے تذکرے اور اس فیصلے کی واپسی کے مطالبے سے گریز بھی ایک ناقابل فہم بات تھی ۔شہباز شریف نے متحدہ عرب امارات سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کرانے کی درخواست بھی کی ہے ۔پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی خواہش اور اس کے لئے بھاگ دوڑ کے جواب میں بھارت کی بے اعتنائی اور پہلے دہشت گردی روکنے کا روایتی منترا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت پاکستان کو بہت مجبور اور لاچار سمجھ کر مذاکرات سے بھاگ رہا ہے ۔وہ چاہتا ہے کہ پاکستان اس وقت اپنی کمزور پوزیشن کو پیش نظر رکھ کر بھارت سے مطالبات کرے دوسرے لفظوں میں بھارت کی شرائط پر مذاکرات کرے۔اعلان اسلام آباد اور نام کانفرنس کے مطابق دہشت گردی کے خلاف مشترکہ میکینزم پر عمل درآمد کرکے بھارت کی مکمل تشفی کرے۔ اس کے بعد کشمیر پر کس نے مذاکرات کرنا ہیں اگر یہ نوبت آتی بھی ہے تو بھارت اُدھر تم اِدھر ہم کا حل تیار رکھے ہوئے ہے جس کے مطابق کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانا مقصود ہے۔بھارت زیادہ سے زیادہ یہ رعایت دے سکتا ہے کہ وہ آزادکشمیر پر اپنے دعوے سے دست بردارہو جس پر وہ اپنے دعوے کو کچھ عرصے
سے زیادہ زوردار طریقے سے پیش کر رہا ہے اور وہ سفارتی سطح پر اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے عالمی فورمز پر آزادکشمیر سے کچھ ہمنوا بھی تیا ر کرچکا ہے۔متحدہ عرب امارات سے ثالثی کی درخواست بھی کوئی اچھا شگون نہیں ۔متحدہ عرب امارات خطے کے سٹریٹجک مقاصد میں بھارت کے بہت قریب جا چکا ہے ۔وہ بھارت کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ کرچکا ہے ایسا ہی معاہدہ وہ اسرائیل کے ساتھ بھی کرچکا ہے۔جبکہ ایسا ہی معاہدہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان بھی ہونے جا رہا ہے۔گزشتہ برس امریکہ اسرائیل بھارت اور عرب امارات کے سربراہوں کے درمیان ورچوئل میٹنگ بھی ہوئی تھی جن میں ان ملکوں نے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جانے کا اعلان کیا تھا ۔متحدہ عرب امارات نے بھارت سے قریبی تعلقات استوار کر رکھے ہیں جن میں مزید گہرائی پیدا ہو تی جا رہی ہے ۔امریکہ کچھ مقاصد کے لئے اسرائیل بھارت اور متحدہ عرب امارات کا اتحاد بناچکا ہے ۔ایسے میں متحدہ عرب امارات خالی ہاتھ پاکستان کی بھارت کے سامنے کیا ترجمانی کرے گا ۔پاکستان کی معیشت متحدہ عرب امارات جیسے مہربانوں کے دم قدم سے سانس لے رہی ہے جبکہ بھارت عرب امارات کی معیشت کے لئے اہم ہے ۔عرب امارات بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اس سے اسلحہ خرید رہا ہے ۔ایسے میں متحدہ عرب امارات پاکستان کو کشمیر پرصبر و شکر کی روایتی تلقین ہی کر سکتا ہے ۔اس لئے شہباز شریف کی طرف سے سبق سیکھنے کے اعتراف اور مذاکرات کے لئے کشکول بردار انداز پاکستان کے مفاد میں تو نہیں مگر نریندرمودی اسے اپنی سیاسی پوزیشن کو مزید مضبوط کرنے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ معیشت کی تباہی نے ہمیں کئی کشکول اُٹھانے پر مجبور کیا ہے جن میں ایک کشکول بھارت سے مذاکرات کا بھی ہے جس کا وجود شہباز شریف کے انٹرویو میں کھل کر سامنے آیا ہے۔
1177

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت