مشرقیات

قرض کی پیتے تھے مے اوراب رنگ لائی ہے فاقہ مستی ، تو آئیں جشن مناتے ہیں۔بھوکے ننگے سہی ،ہم نے کون سا کما کے لٹایا ہے اس بات پربھی جشن بنتا ہے۔اپنے چچا غالب ہی یہ بھی کہہ گئے تھے ۔
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر ومینا مرے آگے
کیا کہا ”ساغر ومیناخالی ہیں”،تو جناب ہم نے کب کہا بھرے ہوئے ہیں پیمانہ خالی دیکھ کر ہی ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور کچھ نہیں کرسکتے تو اپنی حالت پر آپ ہنس بول تو سکتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہنسی ہنسی میں اصل بات کہیں گم ہو جائے دوچار کڑوے کسیلے گھونٹوں کا انتظام ہم کئے دیتے ہیں۔یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ مہاجن حضرات کیسے سوددرسود کی چکر بازیوں میں صدیوں سے اپنے ہم نفسوں کو لوٹتے آئے ہیں پہلے ان کے زیوراور دوسری قیمتی چیزیں گروی رکھوانے سے لے کر زمین جائیداد حتیٰ کہ قرض لینے والوں کے بیوی بچوں کو بھی ”بیگار”کے لیے اپنے تصرف میں لیتے آئے ہیں۔اس چکر سے کسی کا چھوٹنا محال تھا۔آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں یہی کام امیر ممالک اور ان کے گماشتے مالیاتی ادارے کر رہے ہیں طریقہ واردات وہی ہے کہ غریب ممالک کو قرض دے دے کر اتنا بوجھ ان پر لاد دیں کہ وہ اسے اتارنے کے قابل نہ رہیں اور ایک دن مقروض کا ملک ان کی مٹھی میں۔یقین نہیں آرہا تو حال ہی میں آپ نے کیا مفت میں سونے کا پہاڑ اٹھا کر اس کمپنی بہادر کے سر رکھ دیا ہے جو کینیڈا میں جابسے ہمارے سابقہ آقائوں کی اولاد نے کھڑی کی تھی۔اس کمپنی کے قرض کے بوجھ تلے دب کے ہی ہم نے منت سماجت کرکے اسے اپنی مال ومتاع سونپی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر خوشی کے شادیانے بھی بجائے گئے ۔یہ تو ابتدا ہے نہ انتہا ۔اس سے قبل بھی ہم کتنے ادارے ،سڑکیں اور عمارتیں وغیرہ گروی رکھواچکے ہیںکسی روز سرکار نشہ ٹوٹنے پر آپے سے باہر ہوکر بتا گئی تو جان لیں گے ۔تاہم یہ نوبت نہیں آئے گی ۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز کے مالیاتی ادارے ہماری سرکار کے لیے پینے پلانے کا کچھ بندوبست کر دیںگے اس کے لیے جو شرائط بھی وہ منوانا چاہیں کس کافر نے انکار کیا ہے اس کافر سے توانکار کی توقع بھی مت رکھیں جس کے منہ کو قرض کی مے لگی ہوئی ہے ۔بس یا د رکھنے کی بات یہ ہے کہ پرانا قرض بلکہ قرضوںکا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جس طرح رنگ لایا ہے بالکل یہی توقع رکھیں نئے قرض یا سلسلے سے ۔آپ کے پاس ساہوکاروں یا عالمی سیٹھوں کو دینے کے لیے کیا کچھ بچا ہے اس کا حساب کتاب کرلیں ،سونے کے پہاڑ ،تیل کے کنویں ،ائیرپورٹ وغیرہ۔سنا ہے پاکستان کے بنتے ہی سال دوسال بعد انکل سام نے جو قرض کی آفر ماری تھی وہ ہم نے قبول کی تو انکل نے اپنے ساتھیوں کو آنکھ مار کر کہا تھا” ایک اور ملک ہمارا ہوا”۔کیا آپ کو اس سے انکار ہے؟۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں