سیاست نام دشنام

وطن عزیز کی سیاست میں سیاستدانوں کی ایک دوسرے سے شدید ترین مخالفت اور الزام تراشی ہی کا نام سیاست رہ گیا ہے اور ان کی منزل اقتدار کاجائزوناجائز طور طریقوں سے حصول کے علاوہ کچھ نہیں ملک میں اس طرز سیاست کے باعث نہ تو پارلیمان مضبوط ہوتاہے اور نہ ہی سویلین حکومتیں مضبوط ہو پاتی ہیں برسوں سے یہ گھن چکر جاری ہے اور جب تک ملک میں سیاست اسی کا نام رہے گا اس وقت تک یہی صورتحال رہیے گی۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کی پاکستان میں جمہوریت پرجاری رپورٹ کے مطابق40برسوں میں اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں سے مل کر جو چالیں چلیں، وہ اور جمہوری نظام کے ساتھ کھیلا گیا کھیل کوئی پوشیدہ امر نہیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت نے پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت تمام اداروں کو مفلوج کیے رکھا لہٰذا خرابی کے خاتمے کیلئے غیرآئینی کارروائیوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔قابل اطمینان امر یہ ہے کہ فوجی کمان کی تبدیلی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں ملا، اس عدم مداخلت کے فوائد شاید فوری حاصل نہ ہوں لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست سے الگ رہنے کے عزم پر قائم رہے تو جمہوریت میں بہتری کی امید ہے۔پلڈاٹ کی رپورٹ میں جہاں اسٹیبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے وہاں اس کے بغیر حکومت سازی میں سیاستدانوں کی ناکامی کا بھی واضح طور پر تذکرہ موجود ہے چونکہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبداری کااعلان کرکے اب تک اس پرقائم ہے بنا بریں اب بال سیاستدانوں کے کورٹ میں آگئی ہے یہ سیاستدانوں کاامتحان ہو گا کہ وہ اپنے معاملات اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھے بغیر باہم مل بیٹھ کرحل کریںاور ایوان و جمہوریت کو مضبوط بنائیں اگرچہ فی الوقت صورتحال تسلی بخش نہیں لیکن گمان ہے کہ جلد ہی تحریک انصاف بھی سیاسی معاملات کوسیاسی میدان میں ہی حل کرنے واسطے سیاسی جماعتوں سے معاملت پر آمادہ ہوگی دیگر سیاسی جماعتوں میںمفاہمت اورتحریک انصاف کے سیاسی معاملات کے سیاسی حل کے لئے مذاکرات خواہ وہ کھلے عام ہوں یا پھر درپردہ یہ منزل آجائے توپھر ملک میں سیاسی استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کے مزید پیچھے ہٹنے کے عمل کاآغاز ہو گا جس کے لئے سیاسی جماعتوں کو مل کر جتن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بدعت کامکمل طور پر خاتمہ ہو۔

مزید پڑھیں:  امریکی پابندی کا استرداد