الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

اہل لاہور کی زندہ دلی کے اس قدر چرچے کئے گئے ہیں کہ اب یہ الفاظ”زندہ دلان لاہور” ایک ضرب المثل بن چکے ہیں۔اب یہ زندہ دلی سوشل میڈیا پرتقریباً سارے ملک کا اثاثہ بنتی جارہی ہے اور یار لوگ ہر آزمائش کی گھڑی میں سے بھی دلچسپی کا سامان برآمد کرکے صورتحال پر ہنستے رہتے ہیں مثلاً گزشتہ روز جب پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈائون ہوا تو سوشل میڈیا پر جیسے میمیز کا طوفان امڈ آیا ‘ اس سے پہلے کہ اس صورتحال پر بات کی جائے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس طویل بریک ڈائون پر قوم سے معافی مانگنے پرتبصرہ کیا جائے ‘ یقینا وزیر اعظم نے وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹوئیٹر پر قوم سے معذرت کے حوالے سے جو پیغام جاری کیا ہے اس کی صرف ایک مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں موجود ہے جب ملک میں پہلی بار صرف آدھے گھنٹے کے لئے لوڈ شیڈنگ کا آغاز ہوا تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے پہلے دور حکومت کی بات تھی اور اس وقت سینئر وفاقی وزیرمرحومہ بیگم نصرت بھٹو نے قوم کے نام پیغام میں 24 گھنٹے کے دوران صرف نصف گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پر عوام سے اس زحمت کو برداشت کرنے کی درخواست کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ جلد ہی اس صورتحال سے عوام کی جان چھوٹ جائے گی یعنی حکومت ایسے اقدامات اٹھانے جارہی ہے کہ اس لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ ممکن ہو سکے گا لیکن بدقسمتی سے تب سے ملک کے اندر لوڈ شیڈنگ کا جو عذاب شروع ہوا ہے تو آج تک ختم ہونا تو درکنار ‘ اس میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا گیا ‘ یہاں تک کہ بڑے اور اہم شہروں میں یہ عفریت بارہ سے سولہ گھنٹوں جبکہ چھوٹے اور خصوصاً دیہی علاقوں میں تو 22 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ عام سی بات ہے ‘تاہم لفظ معذرت سیاسی لغت سے خارج ہوچکا ہے اور کسی بھی دور میں عوام کو لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے حوالے سے کسی بھی سابقہ حکومت نے اس لفظ کو سیاسی ڈکشنری میں دوبارہ داخل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ‘ اب خدا جانے وزیر اعظم شہباز شریف کو کیا سوجھی کہ انہوں نے اس ”جنت گم گشتہ” کو واپس بہلا پھسلا کر سیاسی لغت کو اپ گریڈ کر لیا ہے اس لئے کم از کم ان کا شکریہ تو ادا کرنا بنتا ہے کہ لفظ معذرت سے عوام کی دلجوئی کا سامان تو کر لیا ہے انہوں نے وگر نہ محترمہ بے نظیر کی پہلی حکومت کے بعد موجودہ حکومت کے درمیان لفظ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے بھی عوام کی دلجوئی تو ایک طرف الٹا شکایتوں کو بھی جھوٹ کہہ کر ان کے زخموںپر نمک پاشی ہی عوام کامقدر بنا دی گئی تھی یعنی ا علان کیا جاتا کہ شیڈول لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ دو یا چار یاچھ گھنٹے ہوگا جبکہ حقیقت میں مقررہ شیڈول کے علاوہ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اکثر یہ اوقات دوگنے نہیں تو ڈیڑھ گنا ضرور ہوتے تھے اور عوام احتجاج کرنے کا ڈول ڈالتے تو واپڈا کا ”پرنالہ”وہیں جما رہتا جہاں پہلے ہوتا ‘ یعنی عوام کوجھٹلا کر بڑی ڈھٹائی سے اعلان کیا جاتا کہ”کنڈہ کلچر” کی وجہ سے اضافی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے گویا بقول داغ دہلوی
دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا
یہ تو خیر لوڈ شیڈنگ کا ذکر تھا جبکہ گزشتہ روز جس طرح کا بریک ڈائون ہوا اور پورا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا تھا اس کے بعدگویاپورا ملک لاہور کے زندہ دلوں کی راہ پر چل نکلا اور سوشل میڈیا پر میمز کا ایک طوفان برپا ہوگیا کیا کیا خوبصورت اور دلچسپ تبصرے تھے جو یار لوگوں نے فیس بک ‘ واٹس ایپ ‘ ٹوئٹر پر لگا کر بذلہ سنجی کی نئی روایت قائم نہیں کی مثلاً ایک بہت ہی قہقہہ بار تبصرہ تو یہ تھا کہ ”گھبرانا نہیں ہے پاکستان ری سٹارٹ ہو رہا ہے ‘ کسی آئی ٹی انجینئر نے مشورہ دیا ہو گا ‘ ری سٹارٹ کرکے دیکھ لیں شاید ملک چل جائے ‘ ایک معروف گلوکار نے جو مبینہ طور پر سابق حکمران جماعت سے زیادہ قریب قرار دیئے جاتے ہیں اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ”قسط ادا نہ کرنے پر آئی ایم ایف والے پاکستان کا بجلی میٹر اتار کر لے گئے”۔ ایک اور صرف نے لکھا کہ ”اپنے گھر کے تمام گیس کے آلات بریک ڈائون کے لئے بروقت بجلی پر منتقل کردیئے تھے ” اسی طرح ایک صحافی سرل الیمڈا نے اپنے چٹکلا نما تبصرے میں کہا کہ ”بجلی فیول اور ڈالرز بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پورا ملک بند کر دیا جائے ”یوںگویا گل افشانی گفتار کی نت نئی مثالیں قائم کی گئیں ‘ یعنی بقول مرزا غالب
پھر دیکھئے انداز گل افشانی گفتار
رکھ دے کوئی پیمانہ وصہبا مرے آگے
بات زندہ دلی کی ہو رہی ہے تو سابقہ حکومت کے دور میں اس قسم کی صورتحال پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں موجودہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے جوتبصرہ کیا تھا اور عمران حکومت کے خلاف”دل کے پھپھولے” پھوڑے تھے ‘ کسی منچلے نے اسے ڈھونڈ کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا ہے جس سے یوں لگتا ہے کہ موصوف خود اپنی ہی حکومت کو کوس رہے ہیں یقینا اس نے دلچسپ صورتحال تو ضرور پیدا کر دی ہے اور زندہ دلی کی ایک نئی تاہم”منفی” مثال قائم کردی ہے لیکن یہ وقتی طور پر موصوف ہنسنے کا سامان پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ جولوگ اس کی حقیقت جانتے ہیں ان کو”دھوکہ ” دینے والوں کو اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہئے ‘ اس لئے کہ وہ اس قسم کی حرکتوں پر خود اپنے اوپر ہی ہنس رہے ہیں اور ان کی حکومت کے دور میں ان سے اس قدر بھی نہ ہوسکا کہ کم از کم عوام سے اسی طرح معذرت ہی کرلیتے جس طرح وزیر اعظم شہباز شریف نے کھلے ذہن و دل سے اعتراف کرتے ہوئے معذرت کر لی ہے ۔ ایک بات البتہ ضرور ہے کہ حکومت کے دعوئوں کے برعکس کہ بریک ڈائون کے بعد پورے ملک میں بجلی بحال کر دی گئی ہے ‘ اب بھی کئی علاقوں سے مکمل بحالی کے دعوئوں کی تردید سامنے آرہی ہے اس پر ایک فلمی نغمے کا یہ شعر یاد آگیا ہے کہ
شب انتظارآخر کبھی ہوگی مختصر بھی
یہ چراغ بجھ رہے ہیں مرے ساتھ جلتے جلتے
اور یہ جو خبر آئی ہے کہ بجلی بریک ڈائون میں متعلقہ حکام کی نااہلی کی نشاندہی ہو گئی ہے اس لئے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی غفلت کی کیا سزا ان کو دی جاتی ہے ‘ حافظے میں ایک واقعہ یہ بھی محفوظ ہے کہ ایوب خان نے جب چین کا دورہ کیا تو ایک بہت بڑے ڈیم کے دورے کے دوران تفصیل سے آگاہ کیا گیا تو ا نہوں نے سوال کیا کہ اگر یہ ڈیم کبھی بند ہو جائے تو اتنے وسیع علاقے کو بجلی کا متبادل کیا ہو گا ‘ چین کے آنجہانی وزیر اعظم چواین لائی نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا ”بریک ڈائون” مگر کیوں؟ کیا یہاں کام کرنے والے انجینئرز سوئے ہوئے ہیں جو بریک ڈائون ہو جائے گا؟ اور اس کے بعد وہ زندہ کب رہیں گے!”۔ یہ بات ویسے ہی یاد آگئی دل پر مت لیجئے گا۔بقول مرحوم کلیم جلیسری
تلاش کرنے میں دقت کبھی نہیںہوتی
وہ میرا گھر ہے جہاں روشنی نہیں ہوتی

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت