معاشی انصاف واحد حل

گزشتہ کالم میں کراچی کے ایک قیدی جو اپنی مجبوری کے باعث کھلونا پستول لے کر گھرمیں گھس کر صرف باورچی خانے سے اشیائے خوردنی لوٹنے کی پاداش میں گرفتار ہوکر عدالت سے قید کی سزا پاتا ہے اور پھر دوبارہ تحقیقات کے نتیجے میں ان کی مجبوری سامنے آنے اورجس گھر میں مبینہ ڈکیتی ہوئی ہے ان کی جانب سے سرے سے مقدمہ نہ کرنے پررہا کردیا جاتا ہے کے حوالے سے روداد چھپی تھی جس میں صرف اتنی توجہ دلائی گئی تھی کہ حالات کتنے اور کس قدر خراب اور لوگ کس حد تک مجبور ہوچکے ہیں جس طرح محولہ شخص پیشہ ور رہزن اور ڈکیت نہ تھے اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ایک مہربان قاری نے یوں بتایا ہے کہ ایک شخص اے ٹیم ایم سے کچھ رقم نکال کرروانہ ہوتا ہے تو دو موٹرسائیکل سوار ان کا تعاقب کرتے ہیں آگے سپیڈ بریکر پر گاڑی آہستہ ہونے پر نوجوان پستول تان کر اس شخص سے رقم حوالہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں مذکورہ شخص ان سے مکالمہ کرتے ہیں کہ وہ کس مجبوری کے تحت ان کو لوٹ رہے ہیں اور ساتھ وہ تیس ہزار روپے کی رقم ان کے حوالے کرتے ہیں مہربان شخص کا نرم لب و لہجہ نوجوانوں کا دل موم کردیتا ہے اور وہ صرف دس ہزار روپے یہ کہہ کر رکھ لیتے ہیں کہ ان کی ماں کینسر کی مریضہ ہے اور وہ ان کے علاج کی سکت نہیں رکھتے دس ہزار روپے میں ان کی دوائی آئے گی اور اگر ہو سکا تو وہ یہ لوٹے ہوئے دس ہزار بھی واپس کرنے کی کوشش کریں گے اس لئے لٹنے والا شخص ان کو اپنا نمبر بھی دے نیز ان کے ہاتھ میں جو پستول ہے وہ نقلی ہے لٹنے والے شخص اور لٹیروں کے درمیان اس طرح کا مکالمہ اچانک اور اتفاقی ہوا ورنہ سیکنڈوں کے اس عمل میں ہر دو جانب سے اس کی گنجائش نہیں ہوتی نیز اس طرح کی گفتگو کی کوشش بھی خطرناک ہوتی ہے کہ نشے کے عادی لٹیرے عجلت اور گھبراہٹ میں ہوتے ہیں اور وہ گولی چلانے اور جان لینے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے خاص طور پر آئس کا نشہ کرنے والوں کی نفسیات اور نشے کے اثرات میں یہ عنصر شامل ہے کہ ان کو ساری دنیا اپنا دشمن نظرآتا ہے اور وہ خود کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں نیز ان کے اعصاب اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی کی بات سن سکے ان کو لوٹنے اور فرار کی جلدی ہوتی ہے اس لئے احتیاط کی جائے کہ اس طرح کا کوئی موقع خدانخواستہ آئے تو بلاچوں و چرا موبائل فون اور بٹوہ حوالہ کرنے کی تلقین ہے جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق ۔ کتنے واقعات چند روپوں کی خاطر قتل کے ہوتے ہیں حال ہی میں کراچی میں بھوکی بہنوں کے اکلوتے بھائی نے محض تیرہ سو رپے کی مزدوری کی رقم بچانے کے چکر میں جاں سے گئے ان کا قصہ بھی دردناک ہے پھر کبھی سہی۔
ہم معاشرے کے لوگوں کا رہزنوں سے نفرت اور اس فعل کو قبیح اور جرم گرداننے میں حق بجانب ہیں لیکن رہزنوں کی محولہ قسم قابل نفرت نہیں بلکہ جذبہ ترحم پیدا کرنے کا موجب ہے ۔ اس لئے ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کے جاری حالات اور ر وز بروز بگڑتی صورتحال اور حالات کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ سخت بھوک کا عالم ہو بچے خواتین اورضعفاء کی تکلیف برداشت نہ ہو خاص طور پر جب کوئی مریض آنکھوں کے سامنے تڑپ رہا ہو تو انسان کے حواس معطل اور آنکھوںمیں خون اترنا فطری امر ہوتا ہے مگر یہ ہرگز ہر گز کسی جرم کی توجیہہ نہیں اس لئے کہ جرم جرم ہوتا ہے خواہ اس کے پس پردہ کہانی کچھ بھی ہو۔البتہ بطور نشان اس طرح کی کہانیوں اور لوگوں کے حالات سے متاثر ہونا اور ان پر ترس کھانا فطری امر ہے
۔ معاشرے میں لوگ ا س حالت کو کیوں پہنچے اس سوال کے جواب میں کئی وجوہات کابیان ہو سکتا ہے بطور مسلمان سوچیں تو اس کی بڑی وجہ لوگوں کا زکواة کی درست اور صحیح طریقے سے عدم ادائیگی ہے یہ درست ہے کہ ایک جانب غربت کی انتہا ہے ہر ایک کی داستان قابل رحم ہے لیکن دوسری جانب ذرا باہر نکل کر دیکھیں تو ایک وقت کے کھانے پر 30,20 ہزار روپے بمعہ دو تین ہزار کا ٹپ دے کر چمچماتی گاڑیوں میں عالی شان گھروں کوواپس جانے والوں کی بھی کمی نہیں شہر کے شہر آباد ہیں کروڑوں اربوں روپے مالیت کے گھروں سے سڑکوں پر لاکھوں کروڑوں روپے کی گاڑیاں جا بجا نظر آتی ہیں عرض فیکٹریاں کارخانے اور بڑے بڑے کاروبار کس کس چیز کا ذکر کریں اولاً تو ان لوگوں پر جان و مال کا صدقہ ہی اتنا بنتا ہے کہ وہ اگر اس مالی عبادت کی ادائیگی کریں تواس طرح کے سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کی مدد ہوسکتی ہے مریضوں کے لئے ادویات بھوکوں کو خوراک اور لباس کابندوبست ہو سکتا ہے یہ نہ سہی لیکن بطور مسلمان زکواة دین اسلام کا اہم ترین رکن اور ستون ہے لاکھ روپے پر ڈھائی ہزار روپے سال میں ایک مرتبہ نکالیں سونے سے لدی پھندی خواتین زکواة دینے لگیں تو بنت حوا کا آنچل محفوظ ہواور آدم زاد یوں دردرکی ٹھوکریں کھاتا اور جرم کرتا نہ پھرے ذرا سوچیں تو ایک فریضے کو اپنے ذمے سے ساقط کرنے پر معاشرے کی کس انداز میں فلاح ہو سکتی ہے اس پر سوچیں اور اندازہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس اہم عبادت اور فریضہ کی ادائیگی کس قدر بابرکت اور اہم ہے ۔معاشرے کی بے راہ روی کا رونا تو ہم بہت روتے ہیں رہزنوں اور ڈاکوئوں کی درندگی کی بھی بات ہوتی ہے مگر ان کے حالات معلوم کرنے اور اس کی وجوہات کے ممکنہ تدارک میں ہم کس قدر کوشش کرتے ہیں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اس پر سوچیں غور کریں اور اپنی ذمہ داری اور فرض نبھائیں تو اس طرح کے واقعات میں کمی لازمی آئے گی۔ زکواة و صدقات میں پوشیدہ فلاح فلسفہ ہم سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی ٹھان لیںتوکئی بیماروںکاعلاج اور ان کو ادویات باآسانی میسرآسکتی ہیں اور کچھ نہیں تو بطور مسلمان ہمیںاس فریضے کی ادائیگی اپنا فرض اور ایمان کا حصہ ہی سمجھ کر ادا ہو توان رہزنوں اور ڈکیتوں کے ہاتھوں اسلحہ نہیں قلم و کتاب آجائے۔اس معاشرے میں انحطاط اور برائیوں کی ایک اور بڑی وجہ انصاف کا نہ ہونا ہے ناانصافی کے باعث معاشرے میں ہر قسم کی محرومیوں میںاضافہ ہو رہا ہے اور محرومیوں ہی کے باعث نشے کی لعنت سے لیکر رہزنی تک کے واقعات معمول بنتے جارہے ہیں ملک میں معاشی ا نصاف ہو اور روزگار و حلال کمائی کے مواقع میسر ہوں تو رہزنی کی وارداتوں کا خاتمہ ہو نہ ہو اس میں واضح اور نمایاں کمی ضرور آسکتی ہے ۔ عدل کا کسی معاشرے سے اٹھ جانا انحطاط کی وہ صورت ہے جس کے بعد معاشرے کی تباہی میں زیادہ وقت نہیں لگتا انصاف اور عدل ہی میں فلاح ہے ملکی عدالتوں کا انصاف کی فراہمی کے حوالے سے عالمی فہرست میں نمبر کونسا ہے سبھی کو معلوم ہے۔معاشرے کو سدھارنے کے لئے معاشی انصاف سے بڑی تبدیلی لائی جا سکتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ اس استحصال زدہ معاشرے اور نظام میں اس کابیڑا اٹھائے کون؟۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب