سیاسی قیادت اور مکالمہ سے گریز

چند برس پہلے ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے مُلکی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ بشمول ان کی جماعت، ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں ایسے ماہرین کی مشاورتی کونسل یا تھنک ٹینک موجود نہیں جو مُلک کے مختلف شعبوں کی کارکردگی ، قومی مسائل کے حل اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں اپنی رائے پیش کر سکیں ۔ اس کے علاوہ جماعت کے کارکنوں اور عہدہ داروں کو جمہوری نظام ، پارٹی کے منشور ، رائے عامہ کا احترام اور سیاست میں اعلیٰ انسانی اخلاق اور دوستانہ اقدار کی بابت لیکچر دے کر یہ اُن کی ذہن سازی کر سکیں۔ یہ لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے سماج میں عصری سیاسی شعور اور اجتماعی دانش کے فروغ میں مثالی کردار ادا کریں لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے اور قوم کو اپنے مفادات کی خاطر بے سمت بنایا جا رہا ہے ۔سیاسی جماعت کے اُس قائد نے میری باتوں سے مکمل اتفاق کیا مگر ساتھ ہی اپنی خاندانی قرابت داری اور جماعت میں شامل بااثر شخصیات کی مجبوری کو اس کوتاہی کا باعث کہا ۔اُنہوں نے عوام کی غلط توقعات اور مطالبات کا بھی ذکر کیا ۔ مَیں نے اُن کے اس عذر کو بے جواز سمجھا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری روایات کے فقدان سے عوام ایک مدبر اور جمہوری فہم و فراست رکھنے والی سیاسی قیادت سے محروم ہوتی جا رہی ہے ۔ دلیل سے بات کرنے کی بجائے گالی دی جا رہی ہے ۔اختلاف رائے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جارہا بلکہ اسے ذاتی دشمنی کے طور پہ لیا جاتا ہے ۔ مُلک میں آج سیاسی بے یقینی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آپس میں مکالمہ نہیں ہو رہا ۔ مُلک کو درپیش مسائل اور عوام کی مشکلات پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ، مل بیٹھ کر ان مسائل کو حل کرنے کی کوئی فکر نہیں ۔اقتدار کی خاطر بس کبھی فوری انتخاب کا مطالبہ ، کبھی پارلیمانی یا صدارتی نظام کی بحث ، کبھی کسی ادارے پہ تنقید تو کبھی کوئی نیا بیانیہ اور ایک دوسرے پر جھوٹا الزام سامنے آرہا ہے ۔ یہ باتیں دراصل ہماری سیاسی قیادت کی بے حسی کا ثبوت اور ان کی بے عملی کا جواز ہیں ۔ آج مُلک کی معیشت کو جو سنگین معاملات کا سامنا ہے ، ان پرکسی حکمت عملی اور ہمت سے غور کرنے کی بجائے ہم اپنے آپ کو ان خود ساختہ الزامات کے پردے میں چھپا لیتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے بھی اسی کارواں اور اس کے رہنماؤں کو یاد کیا تھا کہ جن کے دل سے احساس ِ زیاں جاتا نظر آرہا ہے ۔کسی چیز کے کھونے کا احساس انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہی غلطی نہیں دہراتا جو اُس کے نقصان کا باعث بنی ہو ۔ اگر احساسِ زیاں ہی جاتا رہے تو پھر انسان ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتا اور یہ محرومی انفرادی و اجتماعی دونوں اعتبار سے بربادی کا باعث بن جاتی ہے ۔ہمارے سیاسی اور معاشی حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ سنبھالنے اور سدھارنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ ہر شخص کو معلوم ہے کہ ہماری سیاسی و معاشی بد حالی کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اقتدار سنبھال رکھا ہے اور وہ جو اختلاف کے نام پر محض ہوس ِ اقتدار کی پرورش کر رہے ہیں ، سب کے سب عوامی و قومی مفادات سے
بے نیاز ہیں ۔عوام موجودہ حالات سے بے حد پریشان ہیں مگر ایک عام پاکستانی اپنے مُلک کی فلاح کی خاطر قربانی دینے کو پھر بھی تیار ہے اور اسی انتظار میں ہے کہ شاید ہمارا کارواںپھر سے صحیح راہ پر چل پڑے ۔ نظریاتی اعتبار سے بالخصوص مسلمانوں کو جمہوریت کی راہ میں سب سے آگے ہونا چاہیے تھا ۔ قران کریم میں نوع انسانی کی عظمت کا بار بار ذکر کیا گیا ہے اور یہ تصور بھی پیش کیا گیا ہے کہ انسان زمین پر اللہ کے خلیفہ کے طور پر حکمران ہے مگر ہماری تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سیاسی طور پر ہم ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے کہ اکثریت ِ رائے کا نظریہ دل وجان سے قبول کر لیں اور حکومت کو عوام کی مرضی کے تابع بنا دیں ۔ ہماری سیاسی جماعتیں بھی شخصی جماعتیں بن چکی ہیں ، یہاں بھی کسی سیاسی کارکن کی پذیرائی نہیں ہوتی ۔ اختلاف رائے رکھنے والے کارکنوں کو تو جماعت سے بھی نکال دیا جاتا ہے ۔ خاندانی اثر و رسوخ کے تحت پارٹی میں عہدے تقسیم کیے جاتے ہیں جن میں کوئی سیاسی فکر اور قائدانہ صلاحیت نہیں ہوتی ۔ اسی وجہ سے تو کسی سیاسی جماعت کے پاس نہ مسائل حل کرنے کی استعداد ہے اور نہ ان کے ہاں کوئی ایسی منصوبہ بندی یا حکمت عملی تیار ہوتی ہے جو عوامی مشکلات پہ قابو پا سکے ۔ ایسے میں ایک اکثریت ان سیاسی جماعتوں سے نالاں ہو چکی ہے ۔ عام آدمی پوچھتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے مگر کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ کیا ہونے والا ہے ؟ آرنلڈ ٹائن بی نے ایک جگہ بڑی حیرت سے کہا کہ جب بھی کوئی قوم روبہ زوال ہوتی ہے تو گھروں ،دفتروں ، قہوہ خانوں اور مے خانوں میں ہر شخص سیاست کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ حالات کے تجزیے ہونے لگتے ہیں اور اصلاح احوال کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا جاتا ۔ آج کل ہمارے ہاں بھی یہی ہو رہا ہے ۔ اہل دانش کو اس معاشی ، سیاسی اور سماجی بحران کے بارے بات کرنی چاہیے ، ان معاملات پر اپنی رائے دیں جس سے سیاسی جماعتیں اور قومی ادارے استفادہ حاصل کر سکیں ۔ سیاسی قیادت کو سمجھنا چاہیے کہ مکالمے کا فروغ وقت کی ضرورت ہے ۔
انہیں اس حوالہ سے پہل کرنی چاہیے کہ اس غیر یقینی صورتحال میں لوگ ایک بار پھر سیاست دانوں سے مایوس ہو رہے ہیں ۔ہمیں توقع ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین مل بیٹھ کر قومی معاملات پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں گے۔انہیں نوشتہ دیوار ضرور دکھائی دے رہی ہو گی ۔

مزید دیکھیں :   حکومت کی انگڑائیاں، سیا سی اٹکھلیاں