سعی پیہم کی ضرورت

مشرقیات

حضرت عمر نے ایک صاحب کو طلب فرمایا جس کا نام حبیب تھا۔وہ آئے تو آپ نے پوچھا ۔۔۔۔آپ سعید بن عامر کو جانتے ہیں؟ جواب ملا۔۔۔ جی ہاں! پوچھا۔۔ دوستی واجبی ہے یا اچھی گہری؟ انہوں نے کہا ۔۔حضرت حبیب نے کہا۔۔ ہم ایک دوسرے کوخوب جانتے ہیں۔ فرمایا۔۔ ان کے گھر مہمان بن کر جا سکتے ہو؟ کہا جی ہاں اس میں کیا مشکل ہے۔مشکل اس لئے نہیں تھی کہ کوئی مسلمان کسی مسلمان کے گھر مہمان بن جائے تو اسے لوٹایا نہیں جاتا ہمیں مہمان کی عزت کرنے کاحکم ہے اور بتایاگیا ہے کہ گھرمیں مہمان کے آنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ ایک ہزار درہم کی تھیلی لو اور اس کے پاس جا ۔ دیکھو ان کے حالات کیا ہیں؟ اگر فقر و فاقے کی زندگی ہو تو یہ تھیلی میری طرف سے انہیں دینا تاکہ اپنے استعمال میں لے آئیں۔ حضرت سعید بن عامرحمص کے گورنر تھے۔ خیبر کی لڑائی سے پہلے ایمان لے آئے پھر عہد نبویۖ کے تمام معرکوں میں شریک رہے۔حضرت عمر ایک مرتبہ حمص گئے۔وہاں اپنے گورنر اور عوام سے ملاقاتیں کیں واپسی سے پہلے کچھ لوگوں کو بلایا اور کہا۔۔ مجھے ایسے لوگوں کا نام لکھوائو جو بیت المال سے امداد کے مستحق ہیں۔ فہرست مرتب ہونے لگی تو سب سے پہلا نام لکھوایا گیا۔ سعید بن عامر۔ امیر المومنین نے پوچھا کیوں؟۔
ان کو تنخواہ ملتی ہے۔ لوگوں نے کہا۔۔ تنخواہ میں سے چند درہم نکال کر باقی سب اللہ کی راہ میں بانٹ دیتے ہیں۔ یہ حال سن کر فاروق اعظم نے حضرت حبیب کو طلب فرمایا اور ہزار درم کی تھیلی ان کے حوالے کی ۔حبیب تھیلی لے کر حضرت سعید بن عامر کے مہمان بنے تو دیکھا کہ دسترخوان پر سوکھی روٹی اور زیتون کے تیل کے سوا کچھ نہیں۔ یہ حال دیکھ کر حضرت حبیب نے انہیں ہزار درہم کی تھیلی پیش کی۔ تھیلی ہاتھ میں لے کرانہوں نے بڑے زور سے کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بیوی اپنے حجرے سے بولیں خدا خیر کرے کیا ہو گیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا ۔۔ایک حادثہ رونما ہو گیا ہے۔ بیوی نے پوچھا ۔۔ کیا بہت جانگسل ہے جواب ملا۔قیامت ٹوٹ پڑی ہے بیوی نے کہا تفصیل تو بتایئے؟ شوہر نے جواب دیا۔۔ دولت گھر آئی ہے ۔ امیر المومنین نے ہزار درہم کی تھیلی بجھوائی ہے۔ بیوی بولیں ہاں قیامت کا مرحلہ ہے لیکن کوئی بات نہیں۔ اسے ایک کونے میں رکھ دیجئے صبح مجاہدوں کا دستہ گزرے گا اس کے حوالے کردینا ۔
بڑی بڑی آسامیوں پرجولوگ ہوتے ہیں ان کی بیویاں بڑی حریص ہوتی ہیں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ رشوت خوری کا تمام کاروبار انہی کے ہاتھ میں ہوتا ہے شوہر کے عہدے سے فائدہ اٹھانا بھی خوب جانتی ہیں ۔حرام حلال کی تمیز سب سے پہلے انہی کے پاس سے اٹھ جاتی ہے ۔ایسی بیویاں جو شوہر کی گردن میں آگ کا طوق پہناتی ہیں اسلامی معاشرے کا سرطان ہوتی ہیں۔
حضرت حبیب نے ساری تفصیل امیر المومنین کو سنائی حضرت عمر نے اللہ تعالی کا شکر ادا کیا کہ ان کا انتخاب صحیح نکلا۔سچ ہے دولت بری بلا ہے اس کے چنگل سے بچنا کچھ آسان نہیں ‘ عورت ہو کر مرد جس کے دل میں خدا کا ڈر ہو بس وہی حرص و ہوس کے پھندے سے بچ نکلتا ہے۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے