سعی پیہم کی ضرورت

سعی پیہم کی ضرورت

وفاقی حکومت کی طرف سے خیبرپختونخوا کو مختلف فیڈرل ٹرانسفرزکے تحت فنڈز کی منتقلی میں تاخیر اور صوبے کے بقایا جات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صوبائی حکومت کو مالی مسائل کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صوبے خصوصاً ضم اضلاع میں ترقیاتی و فلاحی اقدامات اور حکمرانی کا مجموعی عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے ۔خیبرپختونخوا کے بجٹ برائے مالی سال2022-23، اب تک کئے گئے اخراجات اور وفاقی حکومت کی طرف سے فنڈز کی منتقلی میں تاخیر کی گئی پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں بھی صوبے کے 61.89ارب روپے وفاق کے ذمہ واجب الادا ہیں ۔رواں بجٹ میں ضم اضلاع کے ترقیاتی اخراجات کے لئے مختص 50ارب روپے میں سے پہلے چھ ماہ میں صرف 5.50ارب روپے جاری کئے گئے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت کے برعکس اس وقت صوبے میں ایک ایسی حکومت ہے جس کے سربراہ مختلف اہم عہدوں پر فائز رہنے کے باعث نہ صرف معاملات کو سمجھتے ہیں بلکہ ان کو حل کرنے کے طریقوں اوراقدامات کے حوالے سے بحث کرنے اور قائل کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہیں خیبر پختونخوا کو ہردور حکومت میں مختلف وجوہات اور بلاوجہ بھی اس کے حقوق سے محروم رکھا گیا اور صوبے میں احساس محرومی کی شکایت اٹھارہویں ترمیم کی منظوری تک رہی اس کے بعد اگرچہ صورتحال میں بہتری ضرور آئی لیکن اس کے باوجوداب بھی صوبے کو مرکز سے شکایات میں کمی نہیں آئی جس پرسیاسی حکومتوں میں سیاسی بنیادوں پر توجہ نہیں دی گئی پہلے یہ سمجھا جاتا رہا کہ وفاق اور صوبے میں ایک جماعت کی حکومت سے صوبے کے حقوق کے حصول میں آسانی ہوگی صوبے کے عوام نے تحریک انصاف کوصوبے میں دوسری مرتبہ حکومت سازی کے قابل بنایا اور یہیں رکھی گئی بنیادوں اور حمایت پر مرکز میں بھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ اپنے ہی وزیر اعظم اور پارٹی رہنما کے سامنے حقوق کی بات کرنے کی بجائے بھیگی بلی بنے رہے جس کا نقصان صوبے کو اٹھانا پڑا اصولی طور پر خیبر پختونخوا سابق حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہئے تھی مگرصوبے کی قیادت ایک ایسے شخص کے حوالے کی گئی جس کے بے اختیار ہونے کی تفصیلات اب سامنے آرہی ہیں یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا مسلسل محرومیوں کا شکار رہا یہاں تک کہ قومی محاصل میں ضم اضلاع کے حصے کی رقم تک ہنوز شامل نہیں ہو سکی اور نہ ہی اس کے لئے حقیقی تگ ودو کی گئی۔ مرکز میں حکومتی تبدیلی کے بعد محاذ آرائی کی جوکیفیت رہی اس میں تو اس بات کی توقع ہی نہیں تھی کہ سابق وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ کے توپوں کے دہانے مرکز کی طرف کرنے کے جواب میں فنڈز ٹرانسفر کا گلدستہ پیش کیا جاتا سابق صوبائی حکومت حزب اختلاف کے ذریعے بھی بالواسطہ طور پر کوشش کرتی تو صورتحال اس نہج پر نہ ہوتی بہرحال اب موقع بھی ہے اور دستور بھی کہ بقایاجات سمیت مرکز سے خطیر رقم کے حصول کے لئے رجوع کیا جائے۔اس بارے دو رائے نہیں کہ خیبرپختونخوا کووفاق سے اپنے حقوق کے حصول کے ضمن میں تقریباً ہر حکومت کے دور میں مشکلات کا سامنا رہا ہے بدقسمتی سے تحریک انصاف کی مرکز اور صوبے میں حکومت کے دور میں بھی اس حوالے سے کوئی بہتری نہیں آئی مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد تو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے صوبے اور مرکز کے درمیان آئینی حدود اور تعلقات کو تیاگ کر جس طرح مورچہ سنبھالے رکھا اور صوبے کے زیراعلیٰ ہونے کے باوجود عوامی مفادات پر جماعتی مفادات کو ترجیح دی محاذ آرائی کی اس کیفیت سے وفاق اور صوبے کے تعلقات پر برے اثرات مرتب ہوئے حکومت کی رخصتی اور نگران حکومت کے قیام کے بعداس بعد اور تنائو کی کیفیت کو دور کرکے صوبہ اور وفاق کے تعلقات کی بحالی اور صوبے کے جائز حقوق کی وصولی میں نگران وزیر اعلیٰ کا کردار اہمیت کا حامل ہے چونکہ اب سیاسی بعد کی صورتحال نہیں رہی تو مرکزی حکومت بھی صوبے کے عوام کو سابق حکمرانوں کے کئے کی سزا نہیں دینا چاہیں گی۔ صوبے کے واجبات اور ضم اضلاع کے حصے کی مزید رقم کی ادائیگی بجلی و گیس کے منافع میں حصہ کے علاوہ وفاق سے خطیرفنڈ کی توقع کی جانی چاہئے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ صوبے کے معاملات سے پوری طرح باخبر نگران وزیراعلیٰ اور گورنر وزیر اعظم کواس امر پرقائل کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے کہ وہ نہ صرف صوبے کے حقوق کی ادائیگی کویقینی بنائے بلکہ احساس محرومی دور کرنے اورتالیف قلب کے طور پرکچھ مزید بھی دستگیری پر آمادہ ہو۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے