ہم اگرعرض کریںگے توشکایت ہو گی

بھٹو کے دورحکومت کاایک واقعہ یاد آرہا ہے جواس وقت سینہ بہ سینہ چلتے ہوئے عوام تک پہنچا تھا ‘ چوہدری فضل الٰہی صدرمملکت تھے ‘ عید آئی تو انہوں نے اپنے اے ڈی سی کو مبینہ طور پر حکم دیا کہ ڈرائیور کو گاڑی تیار کرنے کا کہے ‘وزیر اعظم(بھٹو) کو عید کی مبارکباد دینے جانا ہے ‘ اے ڈی سی نے نہایت ادب سے عرض کی ‘ حضور کیا کر رہے ہیں ‘ یہ تو پروٹوکول کے خلاف ہے ‘ صدرمملکت کا عہدہ کے سربراہ کا ہے اور آئینی تقاضے کے تحت وزیر اعظم عید کی مبارکباد دینے خود صدر کے پاس آئیں گے ۔ فضل الٰہی بے چارہ مسکین سا آدمی اور وزیر اعظم کی مہربانی اور نظر کرم کی وجہ سے کرسی صدارت پر متمکن ہوا تھا ‘ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ”دیکھیں یار کدرے مروا نہ دیویں” بھٹو صاحب ناراض نہ ہوجائیں”۔ مگراے ڈی سی نے بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ پروٹوکول کاتقاضا ہی یہ ہے کہ وزیر اعظم خود عید کی مبارکباد دینے ‘ صدرمملکت کے پاس چل کرایوان صدر آئیں گے ‘ اور بعد میں ہوا بھی یہی جس کے بعد صدر مملکت چوہدری فضل الٰہی کو اطمینان ہوا کہ واقعی پروٹوکول کا یہی تقاضا تھا محولہ بالا واقعہ کا موجودہ حالات کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں کہ اس وقت پروٹوکول کی دھجیاں کس طرح بکھیری جارہی ہیں ‘ اور ایک شخص کی ”ذاتی انا” کو تسکین پہنچانے کے لئے آئینی عہدوں کی کس طرح تحقیر کی جارہی ہے ۔ قصر صدارت میں بیٹھا ہوا شخص جس طرح ایوان صدارت کے آئینی تقاضوں کو پامال کر رہا ہے اور جب سے وہاں براجمان ہے تب سے یہ ایک باوقار عہدے کی پامالی یوں کر رہا ہے کہ آج تک ذہنی طور پر یہ پارٹی کی گرفت سے باہر نہیں آسکا’ حالانکہ کچھ آئینی عہدے ایسے ہیں جن پر براجمان ہونے کے بعد متعلقہ اشخاص کواپنی پارٹی کو(وقتی طور پرہی سہی) چھوڑ کر متعلقہ عہدوں کے آئینی تقاضوں کو اولیت کا درجہ دیتے ہوئے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے یعنی صدرمملکت ‘ چیئرمین وڈپٹی چیئرمین سینٹ ‘ سپیکر وڈپٹی سپیکر قومی و صوبائی اسمبلیوں پر منتخب ہونے کے بعد اصولاً غیرجانبداری اختیار کرنی چاہئے ‘ لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف کے ان اکابرین نے جو محولہ بالا عہدوں پرمنتخب ہوئے کبھی اپنے رویوں سے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ پارٹی کے ساتھ تعلق کو آئینی تقاضوں کے ہم آہنگ کرنے کو تیار ہیں ‘ بلکہ الٹا انہوں نے اپنے کردار سے ہمیشہ یہ ثابت کیا کہ وہ پارٹی پالیٹکس سے مبرا رہ
کراپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں ‘ اس حوالے سے گزشتہ چار سالہ دور میں خاص طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے سپیکر و ڈپٹی سپیکرز کا رویہ واضح طور پر جانبدارانہ رہا ہے بلکہ پرویز خٹک دور میں سپیکر اسد قیصر نے جو رویہ اختیار کئے رکھا اسی کا اعادہ گزشتہ دور میں قومی اسمبلی میں بھی کیا ‘ اسی طرح سٹے آرڈر پر سینٹ میں بطور چیئرمین جو شخص متمکن رہا اس کا کردار بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ‘ اور جہاں تک صدر مملکت کا تعلق ہے تو اس نے بھی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کو ترجیح دیتے ہوئے صدر کے عہدے کو ”بے توقیر” کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جب سے عمران خان کو آئین کے عین مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیاگیا ہے یہ شخص خود چل چل کرپارٹی چیئرمین کی نہ صرف”طاقتور حلقوں”کے ساتھ پرانے تعلقات بحال کرنے کے لئے وکالت کر رہا ہے بلکہ صلاح مشورہ کے لئے خود اس کے پاس چل کر جارہا ہے جو آئینی تقاضوں کے صریح خلاف ہے’ اس لئے کہ اب پارٹی چیئرمین کسی بھی حکومتی عہدے پربراجمان نہیں ہے اور اگرایسا ہوتا بھی تب بھی پروٹوکول کے تقاضے کچھ اور تھے اس لئے بقول شاعر
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
پاکستان کی تاریخ میں بھٹو مرحوم جیسا کوئی سربراہ حکومت کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے مگرانہوں نے بھی آئین کی دھجیاں اس طرح نہیں اڑائیں اور نہ ہی اپنی انا کی تسکین کے لئے کوئی غیر آئینی کام کیا ‘ مگر گزشتہ چار سالہ دور میں جس طرح تحریک انصاف نے تقریباً ہر قومی معاملے میں آئینی تقاضوں کو اہمیت نہیں دی اوراپنے سیاسی مخالفین کو دیوارسے لگانے کی کوشش کی ‘ اسی سلسلے کو صدرکے عہدے پرکام کرنے والے شخص نے پارٹی چیئرمین کی ذاتی پسند وناپسند کے پیمانے سے ناپتے ہوئے عہدہ صدارت کی قدر و
منزلت کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ‘ مسئلہ مگر یہ نہیں کہ ایسا کیوں کیاگیا بلکہ ہمارے ہاں تو بھیڑ چال کی روایات کو سند مل جاتی ہے اور خوف اس بات کا ہے کہ اب یہ رویہ کہیں ہماری سیاست میں مستقل حیثیت اختیار نہ کر جائے کیونکہ آنے والے دورمیں کوئی اور ا یسا رویہ اختیار کرے گا تواس کے سامنے موجودہ صدرمملکت کی ”تابناک” مثال پہلے سے موجود ہوگی اور اب جوتازہ خبر سامنے آئی ہے اس نے ایک پرانے لطیفے کو یاد کرا دیا ہے جس پر ”گیڈربھبکی” کے الزام آسانی سے لگ سکتا ہے یعنی پرانے زمانے کی بات ہے جب ایک بادشاہ نے ایک گیڈر کوکسی بات کی سزا دیتے ہوئے اس کے لئے موت کاحکم دیا’ یہ سن کر گیڈر بولا ‘ مجھے مارو گے تو قیامت آجائے گی ‘ درباری یہ سن کر ایک لمحے تک سکتے میں آگئے اور بادشاہ کی خدمت میں منت ترلے کرنے لگے کہ بادشاہ سلامت اگر اس کی موت سے قیامت آنے کاخطرہ ہے تو بہتر ہے اسے چھوڑ دیا جائے’تمام دربار کی سفارش پرگیڈر کو رہا کرنے کاحکم دیاگیا تاکہ قیامت کو ٹالا جاسکے ‘ آزاد ہوتے ہی گیڈر نے ایک لمبی زقند بھرتے
ہوئے اور دربارکی دسترس سے باہر آتے ہی اونچی آواز میں پکارتے ہوئے کہا ‘ ارے بے وقوفو میں مر جاتا تو میرے لئے توقیامت ہی ہوتی ‘ یہ لطیفہ صدرمملکت کے تازہ بیان پریاد آیا جنہوں نے کہا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری پرشدید ردعمل آئے گا ‘ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن گزشتہ روز یعنی جب سے عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے حوالے سے خبریں سامنے آنے کے بعد پارٹی رہنمائوں کی جانب سے عوام سے باہر نکلنے اور اپنے ”لیڈر” کو بچانے کے بیانات سوشل میڈیا اور بعض چینلز پرآرہی ہیں ان کا ردعمل بھی واضح ہوکردیکھا جا سکتا ہے ‘ یعنی جن توقعات کی امید لگائی گئی تھی ان کا عشرعشیر بھی دیکھنے کو نہیں ملا گویا بقول مرزا غالب
ہوئی جن سے توقع خستگی کے داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیغ ستم نکلے
ویسے بھی جب سے دوصوبوں کی حکومتوں کوخود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پارٹی سربراہ نے تحلیل کیا ہے اس کے بعد پارٹی کے اندر”ٹوٹ پھوٹ” اور ہلچل کی خبریں آرہی ہیں’ بقول منیرنیازی
تھکے لوگوں کومجبوری میں چلتا دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں

مزید پڑھیں:  ایران کے خلاف طاغوتی قوتوں کا ایکا