یہ بات وقت نے ثابت کر دی ہے کہ رجیم چینج نے پی ٹی آئی کے پونے چار برس کی بری حکومت کو بہتر میںتبدیل کر دیا۔ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے مشکل حالات میں حکومت کو سنبھالا اور پھر کرونا نے بھی اپنا کردار ادا کیا’ لیکن یہ بات اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ تحریک انصاف کے پاس عمران خان کے حکومت میں آنے سے پہلے کے دعاوی میں کوئی خاص جان نہیں تھی ‘ نہ ہی آپ کے پاس مختلف محکموں اور شعبوں کے لئے کوئی ماہر و مستند ٹیم تھی۔ یہ بات بھی اپنی جگہ قابل ذکر ہے کہ مشکل حالات اور رائٹ مین فار رائٹ جاب نہ ہونے کے باوجود بعض پراجیکٹ قابل تعریف ہیں ۔ اگر عمران خان کو اپنی مدت کا باقی ماندہ سو برس بھی حکومت میں رہنے دیا جاتا تو ایک شاید تحریک انصاف کوآج کی طرح مقبولیت حاصل نہ ہوتی دوسرا اتنی لمبی چوڑی باتیں کرنے پھیلانے کے مواقع ملتے نہ سائفر سائفر کھیلنے کا شور اٹھتا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت سائفرکی بجائے کارکردگی نہ ہونے اور عوام کوبنیادی ضروریات کی فراہمی پر عدم اعتماد کا شکار بنایا جاتا تو عوام یوں سڑکوں پر نہ ہوتے اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں یہ بے مثال سی تحریک اٹھتی۔
دراصل پاکستان میں اس سے پہلے جتنی حکومتیں گرائی گئی تھیں ‘ ان پر عوام کی طرف سے خوشیاں منائی گئی تھیں لیکن اس دفعہ اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی حکومت نے کچھ خاص ڈیلور بھی نہیں کیا تھا لیکن عوام نے ایسارد عمل دیا جس کی لہریں اب تک معاشرے کے مختلف سطحوں پرمحسوس کی جارہی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اس دن سے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ پی ڈی ایم کی اس حکومت نے جو انتخابات کے لئے مظاہرے کرتی رہی تھی ۔ اس وقت ان کا خیال تھا کہ چونکہ تحریک انصاف کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہو رہی ہے لہٰذا مناسب وقت انتخابات کے لئے یہی ہے لیکن وہ تو معاملہ ہی الٹ گیا۔
اب معاملات گزشتہ نوماہ سے اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ پی ٹی آئی کے پر زور اصرارو مطالبہ کے باوجود پی ڈی ایم اکتوبر تک اپنی مدت پوری کرنے کو تواپنا حق سمجھتی ہی ہے اس کے بعد بھی توسیع کی خواہشمند ہے یا نگران حکومت کوتوسیع دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں ۔ لیکن صاف مختصر اور واضح بات یہ ہے کہ ملک کو سیاسی استحکام دینے کے لئے صاف شفاف انتخابات ناگزیر ہیںاور انتخابات جلد یا بدیر ہو جائیں گے کیونکہ اسکے بغیر چارہ ہی نہیں ۔ مگر اہم سوال یہ ہے کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا۔ انتخابات میں کسی جماعت کو اگرسادہ اکثریت بھی نہ مل سکی تو پھر؟ حالانکہ مشکل اور اہم فیصلے کرنے کے لئے تو دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے کیا پاکستان میں صاف شفاف انتخابات ممکن ہیں؟ سندھ کے بلدیاتی انتخابات کا تماشا اس وقت ایک دنیا دیکھ رہی ہے کہ پولیس نے کچے کے ڈاکوئوں کے ساتھ مذاکرات کرکے بیلٹ بکس واپس لائی ۔۔ وہ سیاستدان جونگران حکومت کے لئے وزراء اعلیٰ پراتفاق نہیں کرسکتے وہ انتخابات کے نتائج پرمتفق ہو سکیں گے۔ چلو مان لیتے ہیں فرض کرلیتے ہیں کہ انتخابات ہو گئے ‘ تسلیم بھی کرلئے گئے ‘ اور تحریک انصاف یا پی ڈی ایم والوں کی حکومت بن گئی توکیا وطن عزیز کاسب سے بڑا مسئلہ ( معاشی مسئلہ) حل ہو سکے گا؟۔ یہ وہ سوال ہے جس پر پوری قوم کو سرجوڑ کربیٹھنا ہوگا۔۔ ورنہ حالات کے تیور ٹھیک نہیں ہیں۔ اس کا ا ندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان اور ماہرین معاشیات اور پی ڈی ایم کے سابق زیر خزانہ مفتاح اسماعیل برملا کہہ رہے ہیں کہ اگر ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو سب کو پشیمانی کے ہاتھ ملنے پڑیں گے۔
ہمارے ملک کو اس وقت معاشی ماہرین کی ایک ایسی ٹیم چاہئے جو پارٹی سیاست سے بالاتر ہوکرصرف اورصرف ملک کے لئے سوچیں ۔ لیکن فکرکی بات یہ ہے کہ بین ا لاقوامی معیار کے معاشی ماہرین نہ تحریک انصاف کے پاس ہے اور نہ پی ڈی ایم کے ترکش میں ایسا کوئی تیر ہے جونشانے پربیٹھ سکے ۔ اب ہمارے معاشی معاملات متاحوں اور ڈاروں(جو اکنامسٹ) ہیں ہی نہیں) سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری سیاسی جماعتوں کے معاشی ماہرین ایک ٹیم کی حیثیت سے انتخابات کے بعد منتخب حکومت کو رہنما خطوط دیں۔ اس کے لئے اگر بین الاقوامی ماہرین کی ضرورت پڑی تو استفادہ کرنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آج کی دنیا اکانومی(جی ڈی پی) کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے اور اس میں اقوام وعوام کاتول و وزن ان کی معاشی ترقی کے تناسب سے کیاجاتا ہے۔پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال پوری دنیاکے سامنے ہے کہ ہماری بندرگاہوں پرسامان واشیاء سے لدے پھندے جہاز کھڑے ہیں ‘ لیکن ایل سی ایز کھول نہیں پار ہیں جس کے سبب دوائوں جیسی اہم ترین اشیائے ضروریہ کی کال پڑنے کا اندیشہ ہے ۔ اس کے باوجود نہ جانے ہمارے سیاستدانوں ‘ حکمرانوں اور مقتدر طبقات کوکیاہوگیا ہے کہ اس حوالے سے سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی منصوبہ بندی سے قاصر ہیں ۔ بس سیاست ہے اور سیاست ہے جس میںازلی دشمنوں کی طرح ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ایڑی چوٹی کازور لگایا جارہا ہے ۔
دنیامیں جہاں کہیں مسلمانوں کی اچھی بھلی ہنستی بستی ریاستیں زوال پذیر ہوئی تھیں ‘ ان کاحال ہم سے بدتر نہ تھا ‘ لیکن آپس میں اتحاد و اخوت کا یہی حال تھا جو اس وقت پاکستان میں برپا ہے ۔ غضب خدا کا ‘ ہم عوام توبھارت سے منہ چھپائے پھرتے ہیں کہ وہ دن رات میڈیا ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں میں جو ارب پتی اورکھرب پتی ہیں’ ان کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ کہنے کو ہم ایٹمی طاقت ہیں اور یہ طاقت ہم نے گھاس کھا کرحاصل کی تھی ‘ بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے لیکن اب شاید اتنی بھی غیرت ہم میں نہیں رہی کہ بھارت کے مقابلے کے لئے اتنا کر سکیں کہ ہم نے اس دیس کی برکت سے اربوں کھربوں کمائے ہیں اب اس دھرتی ماں کو اپنی بقاء اور عزت کے لئے ان پیسوںکی ضرورت آن پڑی ہے لہٰذا اس پر نچھاور کرتے ہیں کہ دیس ہے توپھر کمائیں گے ان شاء اللہ ۔۔۔ لیکن شاید یہ غیرت وحمیت اب جاگنے والے نہیں اس لئے آئی ایم ایف سے قرض کی وصولی کے لئے دو سو ارب روپے کا منی بجٹ قبول ہے جس کے ذریعے ان کی بلا سے عوام بلبلا ہی کیوں نہ اٹھیں۔ لیکن ہم سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ماضی قریب میں سوویت یونین جیسا عظیم اورسائنسی ترقی میں امریکہ کا ہم پلہ ملک صرف معاشی بدحالی کے سبب آج کی پندرہ بیس ریاستوں میں تقسیم ہوکردنیا کے لئے سامان عبرت ہے۔
فاعتبروایااول الابصار
