مودی، مغرب کے اثاثے سے بوجھ تک

بی بی سی ٹی وی کی طرف سے دودہائیاں قبل بھارت میں ہونے والے مسلم کُش فسادات میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندرمودی کا کردار ایک بار پھر زیر بحث لایا گیا ہے ۔یہ دواقساط پر مشتمل ایک ڈاکیومنٹری ہے جس میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے نریندر مودی گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں نہ روک سکے۔”انڈیا ،دی مودی کویسچن ”کے نام سے اس ڈاکیو منٹری میں نریندر مودی کے بطور وزیر اعظم بھارت کے اقتدار کا جائزہ لیا گیا اور اس دور میںہونے والے بڑے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان کے بطور وزیر اعلیٰ متعصبانہ پالیسیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔جس میں گجرات کے فسادات خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔اس فلم کی گونج برطانوی پارلیمنٹ میں سنائی دی جب ایک پاکستانی نژاد مسلمان رکن نے ایک قراردا دبھی پیش کی اور مسلمان کی نسل کشی کے حوالے سے کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ۔جس کے جواب میں برطانوی وزیر اعظم جو بھارت نژاد ہیں کو بیان دینا پڑا ۔بی بی سی کی اس رپورٹ کو بھارتی حکومت نے پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کیا اوراس کی ٹائمنگ کو مشکوک قرار دیا ۔اسے بھارت کی خودمختاری پر حملہ قرار دیاجارہا ہے ۔بھارت کے ٹی وی چینلز پر بھی اس فلم نے صف ماتم بچھا دی ۔وہ چیخ چیخ مودی کی مظلومیت اور بے گناہی کا افسانہ سنانے لگ گئے ہیں۔ایک بھارت نژاد وزیر اعظم کے دور میں بھارت پر اس طرح کا حملہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا جبکہ خود ایک تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت ان معاملات پر ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی بھارت اب برطانیہ کی کالونی نہیں رہا کہ وہ بھارت کے بارے میں تحقیقات کرے گا۔بی بی سی نے نریندر مودی کے جس کردار کو زیر بحث لایا ہے یہ 2002کا
قصہ ہے جس کے بعد مودی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی ۔مگر جب نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے امکانات پیدا ہوئے تھے تو مغرب کی طرف سے ان پر عائد سب پابندیاں ختم ہو گئی تھیں ۔اسی دوران امریکہ میں ان کے داخلے پر پابندی بھی ختم کر دی گئی تھی۔مغربی دنیا نے مودی کے ماضی کے کردار کو بھول کر گلے لگالیا تھا کیونکہ اس وقت مودی پاکستان اور چین کے مقابلے میں مغربی ملکوں کی ضرورت بن گیا تھا ۔نریندرمودی کی انتہا پسند حکومت نے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا مگر مغرب اس رویے پر مصلحت آمیز خاموشی اختیار کئے ہوئے تھا ۔ ہند وانتہا پسندوں نے اس عرصے میں مسلمانوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کیا مگر مغربی مفکرین اس سارے کردار کو مختلف اصلاحات کے گورکھ ددھندے میں چھپاتے رہے ۔القاعدہ کی کارروائیوں کو دہشت گردی کہا جاتا رہا جبکہ انتہا پسند ہندئوں کی گجرات اور دوستی ایکسپریس جیسی کاروائیوں کو غنڈہ گردی کا نام دیا جاتا رہا ۔مغرب کی طرف سے اپنائے گئے اس رویے نے نریندر مودی کی خوداعتمادی یا تکبر میں اضافہ کیا ۔یوں لگ رہا تھا کہ مغرب کو اس خطے میں چین روس اور پاکستان یا ان کے مطابق اسلامی شدت پسندی کے خلاف جس گوہر نایاب کی تلاش تھی وہ ہاتھ آگیا۔اس
حمایت کی وجہ سے نریندر مودی نے بھارت کو
ایک مکمل ہندو راشٹریہ بنانے کا عمل تیز کیا ۔شہریت کے قوانین کے ذریعے اس کا پہلا نشانہ مسلمان بنے ۔مسلمانوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا تو نریندر مودی کے انتہا پسند حامیوں نے شاہین باغ جیسے احتجاج کچل کر رکھ دئیے ۔زرعی اصلاحات کے نام پر سکھوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی مگر سکھ منظم انداز میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور مودی حکومت نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ۔کشمیر کی خصوصی شناخت اس منصوبے کے تحت بدل دی گئی کہ یہ کشمیر کے قبل از اسلام کردار اور تشخص کو بحال کرنے کی طرف پہلا قدم ہوگا ۔ان تمام واقعات اور اقدامات پر امریکہ اور یورپی ملکوں کے ضمیر نے جھرجھری بھی نہیں لی مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اب اچانک کیا ہوگیا مغرب میں مودی کے خلاف پرانی فائلیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں؟اس سوال کاجواب گزشہ برس یوکرین کے مسئلے پر مودی کی اختیار کردہ لائن سے ہے ۔نریندر مودی کو مغرب نے چین اور روس کے مقابلے کے لئے ایک علاقائی داداگیر کے طور پر تیار کیا تھا ۔مغرب کا خیال تھا کہ جب بھی بھارت اور نریندرمودی کے پاس مغرب یا چین وروس میں سے کسی کے انتخاب کا مرحلہ آئے گا تو نریندرمودی مغرب کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔مغرب نے اسی موہوم امید پر نریندرمودی پر مہربانیاں بھی کیں ایک مذہبی انتہا پسند ہونے کے باوجود ان کو سر آنکھوں پر بٹھایا گیا تھا مگر جب وقت پڑا تو مودی نے مغرب کو چکمہ دے کر غیر جانبداری کا چولا پہن لیا ۔نریندرمودی نے نہ روس کی مذمت کی نہ روس پر امریکہ کی پابندیوں کو قبول کیا ۔چین کے ساتھ بھی ایک حد تک ہی مخاصمت کو بڑھا وادیا ۔یہاں تک کہ امریکہ
یورپ اور بھارت کے درمیان اچھی خاصی توتکار بھی ہوتی رہی۔بھارت سے مایوس ہوکر ہی امریکہ نے بھولے بسرے پاکستان کودوبارہ گلے لگانے کا فیصلہ کیا اور جنرل قمر جاویدباجوہ نے کھلی بانہوں سے امریکہ کا استقبال کیا ۔اب مغرب مودی کو چین اور روس کے خلاف ایک ٹارزن کی بجائے طوطا چشم انسان کے طور پر دیکھنے لگا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نریندرمودی کی بین الاقوامی چھترول کا عمل تیز ہوتا دکھا ئی دے رہا ہے ۔بلاول بھٹو نے کچھ دن پہلے نریندر مودی کو بے سبب گجرات کا قصائی نہیں کہا تھا ۔وہ اس وقت امریکہ کے قریب ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس وقت مودی پر تابڑ توڑ حملوں پر مغرب میں زیادہ برا نہیں منایا جاتا بلکہ کسی حد تک یہ مغرب کو خوش کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔اب بی بی سی کی فلم میں مودی کے ماضی کی راکھ سے چنگاریاں تلاش کرنا بھی مغرب میں اس کے ناپسندیدہ بن جانے کا ثبوت ہے۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لارووف کا یہ بیان بھی معنی خیز ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان نیٹو مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہے۔گویا کہ نیٹو ممالک اب بھی چاہتے ہیں کہ بھارت چین کے خلاف ان کا کھلا اتحادی بنے مگر بھارت اس دبائو کی مزاحمت کر رہا ہے۔اس طرح نریندرمودی کے ماضی کو بے نقاب کرنے اور ان پر تنقید کے تیروںکی وجہ گجرات کے مسلمانوں کی محبت نہیں بلکہ مودی سے مغرب کی مایوسی ہے ۔اسی مایوسی کے عالم میں مغربی ممالک کانگریس کے سر پر دست شفقت رکھ سکتے ہیں جہاں راہول گاندھی مودی حکومت پر شدید تنقید کرکے اسے ملک کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار قرار دے کر ”بھار ت جوڑو یاترا ”کے نام سے ملک گیر جلوس نکال رہے ہیںاور مودی پر ان کی نکتہ چینی میں آئے روز شدت اور سختی آتی جا رہی ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں