من چہ می سرایم و طنبورہ من چہ می سراید

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں بروقت انتخابات کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ تمام ادارے عوام اور سیاسی جماعتیں انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنائیں گی کیونکہ یہ آئینی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ9سے13اپریل کے درمیان پنجاب میں اور15سے 17اپریل کے درمیان خیبرپختونخوا میں انتخابات ہوں گے اسی دوران الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کی93نشستوں میں ضمنی انتخابات کرانے پر بھی غور کررہی ہے جو پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفے منظور ہونے کے بعد خالی ہوگئی تھیں۔اس کے باوجود حکمران اتحادی جماعت کے عہدیدار کے مطابق دونوں اجلاس میں سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ قیادت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آئندہ انتخابات اور ملکی معاشی چیلنجز کے باعث صوبوں میں انتخابات کے ممکنہ ملتوی ہونے پر مشاورت کر رہی ہے۔مشاورتی اجلاس میں موجود سینئر سیاستدان کے مطابق انتخابات میں تاخیر سے متعلق بھی تبادلہ خیال جاری ہے حتمی فیصلہ آئندہ ہونے والے متعدد اجلاسوں کے بعد سامنے آئے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ اجلاس میں اتحادی جماعتوں کی اعلی قیادت نے مردم شماری میں تاخیر کا بہانہ بنا کر انتخابات میں تاخیر کے آپشن پر تبادلہ خیال ہوا ہے تاہم آصف زرداری اس سے متعلق قائل نہیں ہوسکے۔پی پی پی انتخابات میں تاخیر کے حق میں نہیں ہے ان کا موقف اور بڑا صحیح موقف ہے کیونکہ اس طرح کا اقدام بے فائدہ ہوگا۔ انتخابات میں تاخیر سے نیا سیاسی بحران آسکتا ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن)کی جانب سے انتخابات کی تاخیر کے منصوبوں سے متعلق خبروں کی تردید کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں اور ہم ایک دن بعد پارلیمانی بورڈ کا اعلان کرلیں گے۔بہرحال ابیھ مشاورت کاعمل جاری ہے دیکھیں کیا فیصلہ آتا ہے آئینی ماہرین کے مطابق تکنیکی طور پر ہوسکتا ہے کہ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ سے حکومت انتخابات میں تاخیر کا اعلان کرے لیکن اس کے نتیجے میں معاملہ عدالت میں جائے گا۔ اگر عدالتوں نے بھی اس اقدام کی توثیق کی تو تمام سیاسی جماعتیں فیصلے پر عدالت کے فیصلے پر اتفاق کرسکتی ہیں۔جہاں تک آئین کی بات ہے تو آئین کے تحت90روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں تاہم نئی مردم شماری کے تحت نئے انتخابات کرانا مشترکہ مفادات کی کونسل کا انتظامی فیصلہ ہوگا۔ایک اور رائے یہ ہے کہ2017میں ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں پہلے ہی ہوچکی ہیں اس لیے انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آرہی، حکومت نے اگر اس طرح کا اقدام کیا تو ملک میں نیا آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔ملک میں سیاسی انتشار پہلے ہی عروج پر ہے جس کے اثرات سے پورا ملک اور خاص طور پرمعیشت پر اس کے منفی
اثرات ناقابل برداشت ہوتے جارہے ہیں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کوعدالت میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور خیبر پختونخوا میں نگران کابینہ کی یکطرفہ تشکیل سے تحریک انصاف کی محرومی اور نظر انداز کرنے کی شکایت بے جا نہیں قومی اسمبلی سے تحریک انصاف مکمل طور پر باہر آگئی ہے ایسے میں بلا مشاورت اور یکطرفہ طور پر اگر کوئی اقدام کیا گیا قطع نظراس کے آئینی اور قانونی حیثیت کے ‘ ملک میں ایک اور عدم ہم آہنگی و تصادم کاباب کھلے گا جس کے متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔ ملک کی معاشی و ا قتصادی صورتحال کی آڑ لے کر کوئی ناقابل قبول قدم اٹھانے کا کوئی جواز نہیں البتہ اگرملک کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر اگر کوئی فیصلہ کریں قومی سطح پر اتفاق رائے ہو جائے جس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے اوراس کا قانونی جواز بھی موجود ہوتو یہ الگ بات ہوگی ایسی صورت میں قومی حکومت کی راہ ہموار ہوگی یا پھر جو بھی صورتحال بنے مگر معروضی صورتحال میں ایسا ممکن اس لئے نظر نہیں آتا کہ تحریک ا نصاف کسی قیمت پر پی ڈی ایم کی قیادت سے معاملت کی روادارنہیں اور عام انتخابات کی راہ ہموار کرنے کے لئے دو صوبائی حکومتوں کے بقیہ مدت کی قربانی دے چکی ہے ایسے میں قومی حکومت کی تجویز بھی ناقابل عمل نظر آتی ہے خود پی پی پی کے چیئرمین بھی واضح الفاظ میں انتخابات کے التواء کی مخالفت کر چکے ہیں بہتریہی ہو گا کہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اور شفاف ضمنی انتخابات یا اس سے بھی زیادہ بہتر ہوگا کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے تاکہ ملک اختلافات اور انتشار کی صورتحال سے نکل آئے۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟