بازاروں کی بندش اور شمسی توانائی

وفاقی حکومت کے فیصلے کی روشنی میں خیبر پختونخوا کی نگران حکومت نے بھی رات ساڑھے آٹھ بجے بازار اور دس بجے شادی ہالز اور ریسٹورنٹس بند کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد شروع کرا دیا ہے، اس ضمن میں تمام اضلاع کی انتظامیہ نے خصوصی اعلامیہ بھی جاری کر دیا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے کئی ہفتے پہلے(3جنوری) کو کابینہ کے اجلاس میں کیا تھا لیکن اس وقت تحریک انصاف کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سے اس پر عمل درآمد سے انکار کیا تھا، اگرچہ اس حوالے سے تاجر تنظیموں اور شادی ہالز ایسوسی ایشنز نے بھی دبائو ڈالا تھا لیکن اب خیبر پختونخوا کی نگران انتظامیہ نے اس پر عمل درآمد شروع کرا دیا ہے، کیونکہ ملک کے اندر توانائی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس وقت بھی صوبہ کے دور دراز علاقوں کو رکھئے ایک طرف، صوبائی دارالحکومت میں بھی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے،بہر حال اب دیکھنا یہ ہو گاکہ تاجر تنظیمیں اس صورتحال پر کیا رد عمل دیتی ہیں اورحکومت کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہوتی ہیں یا نہیں، کیونکہ اس کے متبادل کے طور پر گزشتہ کئی سال سے مارکیٹوں، ریسٹورنٹس اور شادی ہالز میں جنریٹرز کا استعمال عام ہے کیونکہ اگر بقول متعلقہ حلقوں کے وہ اتنی جلدی مارکیٹیں وغیرہ بند کریں گے تو ان کے کاروبار پر منفی اثرات پڑیں گے، ادھر گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کا ایک بیان متبادل کے طور پر سامنے آیا ہے،جس میں انہوں نے کہا ہے کہ صوبہ میں شمسی توانائی کا فروغ ناگزیر ہے، گورنر نے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یقیناً ایک اہم مسئلے کی جانب اشارہ کیا ہے، یاد رہے کہ کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے شمسی توانائی کے حوالے سے ایک پالیسی بیان دیا تھا جس کے بعد اب گورنر حاجی غلام علی نے بھی اس جانب توجہ دلاتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ شمسی توانائی سے سستی بجلی ملنے سے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بھی کم ہو گا، کیونکہ اس وقت پن بجلی مہنگائی کا باعث ہے، اس لئے بہتر ہے کہ ابتدا میں شمسی توانائی کا حصول شادی ہالز، شاپنگ مالز وغیرہ کا حصہ بنا کر کسی نہ کسی حد تک صورتحال کو قابو کیا جائے، اور ساتھ ہی حکومت عام لوگوں کو بھی شمسی توانائی سے استفادہ کرنے کیلئے آسان قرضے مہیا کرے تاکہ متبادل کے طور پر گھروں وغیرہ کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے میں آسانی ہو، اس سے موجودہ لوڈ شیڈنگ سے بھی بڑی حد تک نجات مل جائے گی اور کاروبار بند کرنے کی بھی نوبت نہیں آئے گی، یوں بیروزگاری پر بھی قابو پانے میں مدد ملے گی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟