تو اپنے انداز میں چپ ہے ‘ میں اپنے انداز میں چپ

معلوم نہیں یہ وہ سفید ہاتھی ہے یا نہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہے ‘مگر اس کی ”سفیدی” کا تذکرہ ایک اور محاورے میں ضرور کیا جاتا ہے کہ یہ سفید ہاتھی ہے ‘ ویسے اس کی رنگت کے حوالے سے یقین سے کچھ بھی نہیں کہاجا سکتا کیونکہ اصل صورت میں یہ ہے تو ٹرانسپرنٹ لیکن اس کو واضح کرنے کے لئے کمپنیاں اس میں ہلکا نیلا یا پھر ہلکا گلابی رنگ اس لئے ملاتی ہیں تاکہ ناپ تول کے دوران اس کی موجودگی کا احساس ہوتا رہا ‘ بہرحال یہ وہ ہاتھی ضرور ہے جس کے پائوں میں باقی مسائل کے پائوں الجھے ہوئے ہیں ‘ یعنی بقول شاعر الجھا ہے پائوں یار کا زلف دراز میں ‘ اور یہ جو زلف دراز قسم کا ہاتھی ہے تو اس نے تمام مشکلات کو اپنے پائوں کے نیچے تو نہیں البتہ اپنے ساتھ باندھ ضرور رکھا ہے اور بقول ایوب خاور
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں
اب بتا کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں
اس ہاتھی یا سفید ہاتھی نے جو بھی آپ سمجھنا چاہیں زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کرنا شروع کر دیا ہے ‘ یعنی پٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے جو افراتفری مچی ہوئی ہے اس نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی طوفان مچا رکھا ہے ‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ‘ ہر کوئی اپنی بولی بول رہا ہے ‘ اور فیض احمد فیض کو یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں رہی یعنی بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘ بول زباں اب تک تیری ہے ‘ خدا لگتی کہئے تو اب صرف زبان ہی اپنی رہ گئی ہے جوشکوہ کناں ہے ‘ حبیب جالب زندہ ہوتے تو جانے 1968ء میں (ایوبی آمریت) کے دنوں میں کہے ہوئے الفاظ میں کیا تبدیلی کرتے جب انہوں نے کہا تھا
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر ‘ سہگل ‘ آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
مسئلہ ہمارا یہ ہے کہ آج کی نسل ان ناموں کے بارے میں کم کم ہی جانتے ہیں گوہر سے مراد ان کی ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب سے تھی جو صنعتکاروں میں شامل ہو گئے تھے اور سہگل فیملی اور آدم جی فیملی کی طرح ہندوستان کے برلا اور ٹاٹا خاندانوں کی مانند اس زمانے میں ارب پتی بن گئے تھے ‘ اس حوالے مزید تفصیل میں جانے کا فی الحال موقع نہیں ہے ‘ تاہم جالب نے یہ کہہ کر اس دور پر جو تبصرہ کیا تھا اس کی حقیقت موجودہ حالات میں بھی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے کہ
ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم غریبوں کا ابھی اور پٹائی ہو گی
بات ہو رہی تھی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں تو یہ ہاتھی جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا ہے پٹرولیم مصنوعات ہیں جن کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی ہدایت پر گزشتہ روز یکدم 35 روپے لیٹر اضافہ کیا گیا تو مہنگائی کا جیسے وہ طوفان امڈ آیا جس کے آگے بند باندھنے کی تمام کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئیں اور ہر طرف چیخ وپکار شروع ہو گئی ‘ اس ضمن میں اوگرا نے صرف دو روز قبل ہی تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے حوالے سے سامنے آنے والی خبروں کی جو تردید کرکے عوام کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی تھی اور بالآخر یہ خبر جھوٹ ثابت ہوئی اس پر سوشل میڈیا صارفین نے اوگرا کے لتے لینے شروع کردیئے حالانکہ بعض اطلاعات کے مطابق اوگرا کے اندر ہی سے بعض”منافقین” نے پٹرولیم ڈیلروں کو یہ خبر پہنچا دی تھی کہ تیل مہنگا ہونے جارہا ہے یوں انہوں نے پمپوں پر ”تیل دستیاب نہیں” کے بورڈ آویزاں کرکے مبینہ طور پر راتوں رات کروڑوں کما لئے اور عوام کو عذاب سے الگ دوچار کیا کیونکہ ملک بھر میں پٹرول پمپوں پر لگنے والے رش نے ایک اور ہی صورت پیدا کر دی ‘ اب حکومت نے اگرچہ مصنوعی بحران پیدا کرنے والے پٹرول پمپوں کے لائسنس منسوخ کرنے کا فیصلہ کرکے عوام کی آنکھوں میں”سرمہ ڈالنے” کی کوشش ضرور کی ہے تاہم اس قسم کی خبروں سے عوام کو صرف بہلایا پھسلایا جا سکتا ہے اور ایک دو روز بعد”توکون اور میں کون؟” والی صورتحال ہو گی۔ گویا بقول عباس تابش
تری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز بھی چپ
تو اپنے انداز میں چپ ہے ‘میں اپنے انداز میں چپ
سوشل میڈیا ٹرولرز نے میاں نواز شریف کو بھی طنزیہ تبصروں کی زد پر رکھتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ مفتاح نے دس روپے بڑھائے تو نواز شریف میٹنگ سے اٹھ کر چلے گئے ‘ اس دفعہ کیا کریں گے؟ظاہر کیا کریں گے ‘ خاموشی ہی اختیار کر سکتے ہیں ‘ ویسے اس موقع پر ٹویٹر وغیرہ پر لیگی سپورٹرز کی جانب سے عمران دور کی طرز پرایسی پوسٹیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں کہ پٹرول اگر اس سے بھی مہنگا ہوجائے تو ان کا ووٹ پھر بھی نون لیگ کا ہو گا’ دونوں جماعتوں کے فالوورز کے مابین اس نوع کی پوسٹوں کا مقابلہ جاری ہے ‘جس کا اگرچہ کوئی مقصد نہیں ہے ‘ کیونکہ جولوگ یہ پوسٹیں لگا رہے ہیں ان کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہی نہیں کہ وہ خود کما کر گھر لائیں تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑتے دکھائی دیں ‘ ان کا سارا دارومدارتو ان کے والدین کی کمائی پر ہے جن کے بارے میں مرزا محمودسرحدی نے چھ سات دہائیاں پہلے ہی کہا تھا
حقیقت کی تجھ کوخبر ہی نہیں ہے
نہ جا ان کے ظاہر پہ میرے مربی
کمائی پہ”رشوت” کی اکثر بنے ہیں
وہ گھر جن پہ لکھا ہے ” من فضل ربی”
مررا صاحب مرحوم نے جس رشوت کی بات کی ہے وہ صرف سرکاری اداروں میں رائج”طریق کار”تک محدود نہیں رہا ‘ اب تو رشوت کا دائرہ اس قدر وسعت کرگیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ‘ اور یہ جو ممی ڈیڈی قسم کا طبقہ تقریباً ہر سیاسی جماعت میں اچھل کود کرتا دکھائی دیتا ہے تو ان کو تو مفت کی توڑنے کی عادت پڑ چکی ہے اس لئے یہ اس قسم کی پوسٹیں فخریہ انداز میں لگاتے رہتے ہیں کہ ”پٹرول تین سو روپے لیٹر بھی ہوجائے تو میراووٹ فلاں پارٹی یا رہنما کا ہے” حالانکہ اصل حقائق تو صرف وہ جانتے ہیں جنہیں محنت مزدوری کرتے ہوئے ” دال روٹی کا بھائو” پریشان کرتا رہتا ہے ۔ایسی صورت میں کم از کم پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کے سچ کو سند پذیرائی ضرور ملنی چاہئے جنہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”مہنگائی کم کرنے آئے لیکن ناکام رہے” بقول شاعر
غیرممکن ہے کہ حالات کی گھتی سلجھے
اہل دانش نے بڑی سوچ کے الجھائی ہے

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے