معیشت کی قیمت پر سیاست

پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، اقتدار کے شراکت داروں نے ہر دور میں معیشت کو ٹھیک کرنے کے دعوے کئے ` عوام نے اعتماد کیا، مگر ہر چار پانچ برس کے بعد نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جانے والی حکومت معاشی تباہ حالی کے آثار چھوڑ کر گئی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں پچھلے پانچ برس کا جائزہ لینے سے ساری کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں مہنگائی بڑھی، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ اپنی قدر کھونے لگا تو کورونا سمیت سو طرح کے جواز پیش کئے گئے، عوام مشکلات سے دور چار تھے مگر دعویٰ کیا گیا کہ زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں، درآمدات بڑھ گئی ہیں، اگر ان دعوؤں میں حقیقت ہوتی تو آج عوام اس کے ثمرات سے مستفید ہو رہے ہوتے، مگر الفاظ کے ہیر پھیر سے ترقی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، سیاست کو بچانے کیلئے ہر وہ حربہ اختیار کیا جاتا ہے جس سے اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت آئی تو اُمید پیدا ہوئی، کیونکہ یہ جماعتیں تحریک انصاف کی ناتجربہ کاری کو معاشی تباہی کی وجہ قرار دے رہی تھیں۔ عوام کے سامنے اس ناتجربہ کاری کی کئی مثالیں بھی موجود تھیں، اس لئے پی ڈی ایم کے سیاسی مؤقف پر عوام نے اعتماد کر لیا اور انہی سیاسی جماعتوں سے دوبارہ اُمید لگا لی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں۔ اتحادی حکومت کی گزشتہ دس ماہ کی مایوس کن کارکردگی اس بات کی علامت ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو رخصت کرنے کے پس پردہ معاشی نہیں بلکہ سیاسی مقاصد تھے، ملک کے موجودہ معاشی حالات کی ذمہ دار اتحادی حکومت اور اس میں شامل جماعتیں ہیں، گزشتہ دس ماہ کے دوران جو معاشی تجربے کئے گئے ہیں
اسی کا شاخسانہ ہے کہ آج ڈالر266 سے تجاوز کر گیا ہے، روپے کی قدر میں یہ گراوٹ ہمیں بہت پیچھے لے گئی ہے، ایک دن میں قرضوں کے حجم میں کھربوں روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، مصنوعات کی قیمتوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے، کہا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کنڑول کیا ہوا تھا اب اسے مارکیٹ میں آزاد چھوڑا ہے تو وہ جمپ کر گیا ہے۔ ستمبر کے آخری ہفتے اسحاق ڈار لندن سے وطن پہنچے تو ڈالر 10روپے تک نیچے آ گیا، اسحاق ڈار نے اس کمی کو اپنی آمد سے منسوب کرتے ہوئے اہم کامیابی قرار دیا۔ اب ایک دن میں ڈالر میں28روپے کا اضافہ ہوا ہے تو اسحاق ڈار خاموش ہیں حالانکہ وہ وزیرخزانہ ہیں، انہیں اس کا جواب دینا چاہئے۔ ہماری نظر میں اسحاق ڈار کا بڑا بول انہیں لے ڈوبا ہے’ انسان بہرصورت کمزور ہے اسے اپنی حدود اور الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہنا چاہئے ۔
ملکی معیشت جس حد تک تباہ ہو چکی ہے اسے ٹھیک کرنے کیلئے برسوں درکار ہوں گے، اگلی حکومت کیلئے بھی چیلنجز موجود رہیں گے، کیونکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے، اس حوالے سے کئی طرح کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ایمرجنسی کے تحت مخلوط حکومت تشکیل دینے کی تیاری ہو رہی ہے، عمران خان اس سیٹ اپ کا حصہ ہوں گے۔ اگر عمران خان نہیں مانتے ہیں تو پھر موجودہ حکومت کو دو سال کی مشروط توسیع دی جائے گی۔ معیشت کی بہتری اس سیٹ اپ کی اولین ترجیح ہو گی۔ اگر سیاسی جماعتیں اس پر رضا مندی کا اظہار نہیں کرتی ہیں تو پھر تھرڈ آپشن کا راستہ نکلے گا، سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام کی اکثریت اس تھرڈ آپشن کی حمایت کرے گی۔ اتحادی جماعتیں تکنیکی بنیادوں پر تاخیری حربے اختیار کر کے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہیں تاکہ معاشی بحران کی ان پر ذمہ داری عائد نہ ہو اور سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جا سکے۔
دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد تین ماہ کے اندر انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے دونوں صوبائی گورنرز کو خط لکھ کر پنجاب میں 9سے 13اپریل جبکہ خیبرپختونخوا میں15سے17 اپریل کے درمیان عام انتخابات کی تجویز دی تھی، تاہم حکومت ڈیجیٹل مردم شماری کے مکمل ہونے تک انتخابات کیلئے تیار دکھائی نہیں دیتی ہے۔ یکم فروری کو ڈیجیٹل مردم شماری کا شیڈول تھا جسے تبدیل کر کے یکم مارچ کر دیا گیا ہے، مردم شماری کا عمل ایک ماہ تک جاری رہے گا، بروقت مردم شماری مکمل نہ ہونے کی صورت میں مزید تاخیر بھی ہو سکتی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کا منصوبہ تحریک انصاف نے اکتوبر 2021ء میں پیش کیا تھا، تحریک انصاف نے شفاف انتخابات کیلئے ڈیجیٹل مردم شماری کو ضروری قرار دیا تھا اس بنا پر تحریک انصاف ڈیجیٹل مردم شماری کے عمل کی مخالفت بھی نہیں کر سکتی ہے۔ پی ڈی ایم
کے سربراہوں نے حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی ہے جس میں صوبائی اسمبلیوں میں انتخابات پر مشاورت ہوئی ہے، مگر ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے نہیں آ سکی ہے، تاہم حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ اتحادی جماعتیں فوری الیکشن نہیں چاہتی ہیں، معیشت کو ٹھیک کرنے کی بجائے توجہ ہٹانے کیلئے اقدامات کر رہی ہیں’ تحریک انصاف قیادت کی حالیہ گرفتاریاں اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ فواد چوہدری کے بعد عمران خان کی گرفتاری کی خبریں گردش کر رہی ہیں، اگر واقعی عمران خان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو اس کا سخت ردعمل آئے گا۔ احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ کا نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا، ملک کے موجودہ حالات مزید سیاسی انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سیاسی جماعتوں کو لامحالہ کوئی ایسا راستہ نکالنا ہو گا جس میں اقتدار کے تمام شراکت داروں کی شمولیت ہو۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اس معاملے کو کافی حد تک حل کر دیا ہے انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف انتخابات کا اعلان چاہتے ہیں وہ ”فوری” انتخابات کا مطالبہ بھی نہیں کر رہے ہیں ‘ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب گیند اتحادی جماعتوں کے کورٹ میں ہے۔ اتحادی جماعتیں فریش میڈیٹ حاصل کرنے کی بجائے معیشت کی قیمت پر سیاست کر رہی ہیں، مطلب یہ کہ حکومت اتحادی جماعتوں کی اور معیشت کا ذمہ دار عمران خان۔ اس تھیوری پر عوام کب تک یقین کریں گے؟ سو ضروری ہو گیا ہے کہ صدر مملکت کی تجویز کو سنجیدگی سے لیا جائے کیونکہ تحریک انصاف بہرصورت ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے عمران خان کو مائنس کر کے سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے کی سوچ کسی طور بھی ملک کے حق میں مفید ثابت نہیں ہو گی۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟