افسوسناک واقعہ

کوہاٹ کے واحد تفریحی مقام تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے سے مقامی مدرسے کے30طلباء کا ڈوب جانا بڑا سانحہ ہے۔مقامی ذرائع کے مطابق کشتی میں گنجائش سے زیادہ افراد بٹھانے کی وجہ سے حادثہ پیش آیاجبکہ کشتی میں سوار ایک شخص کوبھی لائف جیکٹ مہیا نہیں کی گئی تھی جبکہ کشتی چلانے والے ملاح کے بارے میں بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تربیت یافتہ تھا ۔سانحہ تاندہ ڈیم نے جہاں تیس سے زائد خاندانوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے۔ اس سے قبل بھی ڈیم میں لوگوں کے ڈوبنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ ڈیم میں کشتی رانی اور نہانے پر برائے نام دفعہ 144نافذ کر کے ہی خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے ۔اگرچہ ان طالب علموں کے بارے میں یہ واضح نہیں کہ ان کو مدرسے کی طرف سے پکنک پر لے جایا جارہا تھا یا پھر وہ اپنے طور پر جا رہے تھے غالب گمان یہ ہے کہ ان کو مدرسے کی طرف سے لے جایا جارہا ہو گا کیونکہ اس عمر کے مدرسے کے بچے خود سے اتنا بڑا پروگرام نہیں بنا سکتے تھے ایسے میں اولین ذمہ داری مدرسے کے مہتمم اور اساتذہ پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اس طرح کا پر خطر پروگرام کیوں مرتب کیا اور بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے کشتی میں اتنے بچوں کو سوار کرانے کی غلطی کیوں کی اس کے ساتھ ساتھ ملاح نے اس طرح کا خطرہ کیوں مول لیا ان تمام سوالات اور بے احتیاطیوں سے قطع نظر تقریباً سالانہ بنیادوں پر اس ڈیم میں اس طرح کے حادثات پیش آنے کے واقعات سے انتظامیہ نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کشتی رانی کے انتظامات کرانے میں سنگین غفلت کا مرتکب کیوں ہوا۔ایک حساس اور پر خطر مقام ہونے کی بناء پر یہاں پر پولیس کی موجودگی لازمی ہونی چاہئے تھی مستزاد ڈیم کی انتظامیہ کی اس قسم کی غفلت و لاپرواہی کہ اس طرح لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے خوفناک قسم کے پرخطر کشتی رانی اورماضی کے واقعات سے سبق کیوں نہ سیکھا گیا اور کشتی چلانے کی اجازت دیتے وقت اور پھر کشتی رانی کے موقع پر خاص طور پر جب بچوں کو بٹھایا جارہا تھا اس وقت کسی کی بھی اس کی طرف توجہ نہ گئی ان تمام سوالات کا جواب انتہائی غفلت کا ارتکاب اور غیر ذمہ داری کی انتہا ہی نظر آتاہے جس کی تحقیقات کے بعد ذمہ دار کرداروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے اور آئندہ کے لئے اس طرح کے واقعات سے بچنے کی مناسب تدابیر یقینی بنائی جائیں۔

مزید پڑھیں:  منفی ہتھکنڈوں سے اجتناب کیجئے