ناقابل برداشت بوجھ

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے اضافے سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں، یادرہے کہ پٹرولیم قیمتوں میں یہ اضافہ ڈالرکی قیمت بھی35 روپے سے زائد بڑھنے کے بعدکیاگیا ہے ۔ وفاقی وزیر خرانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جارہاہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمت میں اضافے اور اسٹیٹ بینک کے اقدامات کے باعث روپے کی قدر میں ہونے والی کمی کے باوجود وزیر اعظم کی ہدایت پر اوگرا کے ساتھ مشاورت کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کم از کم اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ میڈیا کی قیاس آرائیوں میں کہاجارہا ہے کہ80روپے تک اضافہ متوقع ہے۔دوسری جانب ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ کا سلسلہ جاری ہے اور ڈالر 270 روپے کا ہو گیا ہے اس کے تین سو روپے تک جانے کا خدشہ ہے دیکھا جائے تو یہ سلسلہ ابھی کا نہیں بلکہ گزشتہ دور حکومت سے جاری ہے جس کی بنیادی وجہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اور اس کی شرائط ہیں۔آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کی ابتداء ہی کمر توڑمہنگائی اور عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑنے کے مترادف عمل ہے ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی عروج پر ہو اور لوگوں کے لئے مہنگا آٹا کی خریداری گھروں کے کرائے بچوں کی فیس ٹرانسپورٹ ادویات اور اس طرح کی ناگزیر ضرورتیں پوری کرنا ناممکن ہوگیا ہے ڈالر کی قیمت میں بڑے اضافے کے اثرات سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا تھا ایسے میں اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 35 روپے کا بڑا اضافہ مرے کو مارے شاہ مدار کے زمرے میں آتا ہے ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ جو بم پھٹنا تھا وہ پھٹ چکایا ابھی عوام کا مزید امتحان ہوناباقی ہے خدشہ ہے کہ یہ آخری نہیں بلکہ مزید ابتر صورتحال کے خدشات ہیں کیونکہ ابھی ڈالر کی قیمت میں افادہ مختتم پر نہیں اور نہ ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یہ آخری اضافہ ہے بلکہ اس میں مزید اضافے کے قوی امکانات ہیں یہ بات ہر خاص و عام کو بخوبی معلوم ہے ہی کہ ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات کیا ہوتے ہیں اور عوام کو اس طرح کے عوامل کے کیا نتائج بھگتنا پڑتے ہیں ۔ دوسری جانب روپے کی قدر مسلسل گھٹتی جارہی ہے اور عوام کا محدود آمدنی میں گزارہ ناممکن ہوتا جارہا ہے عوام مختلف اطراف سے معاشی حملوں کی زد میں ہیں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ٹرانسپورٹ کرایوں پر پڑنے والے اثرات کے نتائج بھی فوری طور پر سامنے آتے ہیں اس صورتحال سے نہ سابقہ اور نہ ہی موجودہ حکومت بری الذمہ ہو سکتی ہے سخت فیصلے بہرحال مجبوری ہیں لیکن مشکل امر یہ ہے کہ سخت فیصلوں کے اثرات سے عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے جو پہلے ہی مفلوک الحالی کا شکار چلا آرہا ہے اس کے اثرات روزگار اور کاروبار و صنعتوں پر بھی پڑنے سے من حیث المجموع ملک مشکلات میں گھر چکا ہے لیکن حکومت سوائے قرض لینے اور عوام پر ہی مزید سے مزید بوجھ ڈالنے کی بجائے باقی اقدامات کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی حالانکہ حکومت کے پاس اختیار کرنے کے دیگر راستے موجود ہیں حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر سخت فیصلے تو کر سکتی ہے لیکن خود ملک و قوم کے مفاد میں اس کا کوئی ایک ٹھوس قدم نہ اٹھانا لمحہ فکریہ ہے ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ ان حالات میں عوام کا بوجھ کم کرنے کے اقدامات کرے جس کا آغاز حکومتی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی سے کی جائے تمام سرکاری ملازمین کو گھر پٹرول اور سرکاری گاڑیوں کی سہولت فوری طور پرختم کی جائے ۔ ساری زرعی زمینوں کی لیز ختم کی جائے ‘زراعت میں پٹہ سسٹم کا خاتمہ کیا جائے ‘ مفت یونٹ اور مفت سفر کی سہولت ختم کی جائے ‘ بھارت سے تجارت پر پابندیاں ختم کی جائیں ‘ تاپی گیس پائپ لائن پر کام شروع کیا جائے تاکہ سستے ایندھ کی فراہمی کی راہ ہموار ہو حکومت کو رئیل سٹیٹ کے حوالے سے بھی اہم اورسخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔جن لوگوں کے پاس سونا اور غیر ملکی کرنسی ہے ان کو بینکوں اور کاروبار میں لانے کی ترغیب دی جائے اور اس کا آغاز حکومتی حامی جماعتوں کے وابستگان کریں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی مجبوری اپنی جگہ لیکن اس قوم کے پاس جو کچھ ہے اور جو وسائل اور امکانات ہیں ان کو بروئے کار لایا جائے تو حالات میں بہتری ہو سکتی ہے ۔ اس وقت سیاست بچانے اور سیاست کرنے کی نہیں ملک بچانے کی ضرورت ہے اور یہ ملک کسی ایک کا نہیں ہم سب کا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد و سخت آمد