پاکستان پرانی اور پرائی جنگ کا سپاہی؟

یادش بخیر امریکہ اور پاکستان کے بگڑے ہوئے تعلقات میں اچھائی اور سدھار کے آثار نمایاں ہیں ۔سال بھر پہلے تک یوں لگ رہا تھا کہ سات عشرے سے زیادہ کے دونوں کے بے نام تعلق کوگہن لگ گیا ہے ۔دونوں کے تعلقات سفارتی اور فوجی سطح پر محدود ہو چکے ہیں ۔سلالہ حملے کے بعد سے شروع ہونے والا تعلقات کا زوال کا سفر رکنے نہیں پائے گا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں کے دفاعی تصورات میں گہرا تضاد آگیا تھا ۔دونوں کے ہیرو اور ولن تبدیل ہو کر رہ گئے تھے ۔امن اور استحکام کے نظریات میں خاصا فرق آگیا تھا ۔امریکہ نے جنوبی ایشیا کو بھارت کے زاویے سے دیکھنا شروع کیا تھا ۔امریکہ کا خیال تھا کہ اس خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کے دیے کو چاند بنانے اورروشن رکھنے کے لئے بستی کا ہر چراغ بجھانا لازمی قرارپا یا تھا ۔بھارت کو بڑا بنانے اور دکھانے کے لئے اس کے ہمسایوں کو چھوٹا رکھنا لازم ٹھہرا تھا ۔اس تصور نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس تصورسے اتفاق نہیں کر رہی تھی بلکہ اس کی مزاحمت پر یقین رکھتی تھی ۔نجانے کب یہ منظرنامہ اچانک بدلنے کاآغاز ہوگیا اور پھر یکایک منظر یوں بدلتا چلا گیا کہ امریکہ کا تصور تو نہیں بدلا مگر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا منظر ضرور بدلنے لگا ۔مزہ تو تب تھا کہ پاکستان امریکہ کے جنوبی ایشیا کے تصورات کو تبدیل کرکے دوستی کا احیاء کرتا مگر افسوس یہ ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے تصورات کے آگے خودسپردگی کا راستہ اختیار کیا ۔اسی لئے اب یہ باتیں عام ہیں کہ آئی ایم ایف کسی بھی مرحلے پر پاکستانی حکام کے آگے فوج کی تعداد کم کرنے اور ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے مطالبات کا کاغذ رکھ سکتا ہے ۔ایسے میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی پاکستانی ساجد نذیر تارڑ نے انکشاف کیا ہے ری پبلکن پارٹی اس بات کی تحقیقات کررہی ہے کہ امریکہ افغانستان سے عجلت میں کیوں نکلا اور اس سوال کے جواب ملنا بھی شروع ہوگئے ہیں ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے عجلت میں بھاگنے کی ایک وجہ پاکستان بھی تھا ۔یہ جملہ خاصا اہم ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے جلدبازی میں نکلنے کی کی بہت سی وجوہات میں ایک وجہ پاکستان بھی تھا ۔ساجد تارڑ نے اس بات کی وضاحت تو نہیں کی مگر لامحالہ اس
کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان برسوں کی دوری اور مخاصمت کے بعد اچانک ایک نقطۂ اتصال قائم ہو گیا تھا ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی مگرایک بار پھر نیم شب کو آنے والی ٹیلی فون کال پر پوچھے جانے والے سوال کہ” آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ” کے جواب میںکسی کمزور لمحے پاکستان نے ایک بار پھر” آپ کے ساتھ ہیں” کہہ کرہاں کر دی تھی دیا۔شاید یہ عمل اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب سویزرلینڈ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر پاکستان کی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ساتھ دو تین دن راز ونیا ز میں مصروف رہے اور اس کے بعد پاکستان نے باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت نئی قومی سلامتی پالیسی کا اجر کیا ۔گویا کہ پاکستان نے حالیہ برسوں کی ساری رنجشیں بھلا کر ایک بار پھر علاقے میں امریکہ کی انگلی پکڑ کر چلنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ایک ایٹمی طاقت کا پورے کا پوراساتھ حاصل ہو رہا تھا تو ایسے میں امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج مروانے کی کیا
ضرورت تھی ؟اور ایسے میں جب امریکہ میں فوجیوں کی قربانی اور انسانی وسائل کے بے مقصد زیاں کی وجہ سے معاشرے میں ایک بے چینی اور ہیجان پھیلتا چلا جا رہا تھا ۔لوگ سوال پوچھ رہے تھے کہ امریکہ افغانستان میں اپنے وسائل کو کیوں جھونک رہا ہے اور کیوں اپنے فوجیوں کو قربان کر رہا ہے ۔امریکہ کے حکمران اس سوال کے آگے مجبور اور بے بس سے نظر آنے لگے تھے ۔اُسامہ بن لادن کی ہلاکت اور القاعدہ کی کمر توڑنے کے امریکی دعوے کے بعد تو لوگ زیادہ شد ومد کے ساتھ یہ سوال اُٹھانے لگے تھے ۔شاید یہی وجہ تھی کہ امریکہ پس پردہ پاکستان پر دبائو بڑھائے ہوئے تھا کہ وہ امریکہ میں اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے میں معاون کا کردار ادا کرے ۔ماضی میں پاکستان کی سویلین حکومتیں امریکہ کے آگے ڈھیر ہوجاتی تھیں اور اسٹیبلشمنٹ شکوہ کناں نظر آتی تھی کہ ہم امریکہ کے مقابل کھڑے ہونے پر تیار تھے مگر سویلین حکمران ساز باز کرکے امریکہ کے آگے ڈھیر ہوگئے اور یوں امریکہ سے تعلقات کے معاملے میں سول ملٹری کشمکش سے پاکستان کی بارگیننگ پوزیشن کمزور ہو جاتی تھی ۔اس بار پہلی بار پاکستان میں ایک سویلین حکمران عمران خان نے امریکہ کو فوجی اڈے دینے سے برملا انکار کیا اور امریکہ کی جنگ اور مقاصد کا ٹوکرا اُٹھانے سے صاف انکار کیا ۔صرف پرائیویٹ محفلوں میں ہی بلکہ پبلک مقامات پر بھی وہ اپنے اس موقف کا اظہار کرنے لگے اور شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے سول حکومت کو نظر انداز کرکے اس بار اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مذاکرات اور معاملات طے کرنے کا راستہ اختیار کیا ۔جس کے نتیجے میںجب اصولی اتفاق رائے ہوئے تو تعاون کے اس راستے پرچلنے سے پہلے ہی رکاوٹ کو دور کرنے کے انداز میں رجیم چینج لازمی قرار پائی ۔شاید پاکستان کی طرف سے امریکہ کے ساتھ چلنے کے عہد وپیماں ہونے کے بعد ہی امریکہ کو افغانستان کو جوں کی توں حالت میں چھوڑ کر اپنا دامن بچانے کا راستہ اختیار کیا ۔امریکہ افغانستان سے اپنے فوجی بچا کر لے جا رہا تھا مگر اس کے افغانستان میں جو مقاصد تھے وہ پورا ہونا باقی تھے اور ان مقاصد کی تکمیل کے لئے پاکستان کا کندھا درکار تھا ۔امریکہ پاکستان سے ایسے اڈے مانگ رہا تھا جن سے افغانستان میں فضائی کاروائی کی جا سکے ۔امریکہ تو فضا سے ڈرون مار کر رخصت ہوجائے گامگر اس کے بعد ماضی کی طرح ردعمل کا سامنا زمین پر پاکستانی فوج اور معاشرے کو کرنا پڑے گا ۔گویا کہ امریکہ اپنی گردن چھڑا کر یہاں پاکستان کو پھنسانا چاہتا تھا ۔خود فضاوں میں دور دور اور پاکستان کو زمین پر ردعمل سہنے کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔یہ سراسر پاکستان کو دوبارہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لے جانے کی حکمت عملی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور امریکہ اور چین کے درمیان کسی کشمکش میں اپنا دامن جنگ اور آگ کے شعلوں سے بچانے کی کوشش کریں ۔امریکہ کو اگر کچھ ضمانتیں دی گئی ہیں تو انہیں منسوخ کیا جائے اور کسی کی جنگ کے لئے اپنا کندھا پیش کرنے کے فیصلوں کو ریورس کر کے ملک کو ایک خوفناک کشمکش سے بچایا جائے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن