عوام کو یقین دلانے کی ضرورت

تحریک پاکستان کی کامیابی میں سب سے بڑا کردار اس شخصیت کا ہے جس نے قائد قوم کی حیثیت سے عوام کو ایمان ‘ اتحاد اورتنظیم کا نعرہ دیا ۔ برصغیرپاک و ہند کے مسلمانوں کا قائداعظم کی ذات ‘ کردار اور قیادت پر اتنا یقین تھا کہ ان صوبوں اورعلاقے کے لوگوں نے بھی تحریک پاکستان کے حق میں اپنا حصہ ڈالا۔ قیادت پر عوام کا ایمان و یقین معجزے و کرامات برپا کردیتا ہے ۔ اس کا ایک حوالہ تاریخ میں یہ بھی ہے کہ قائد اعظم جب پنجاب کے دورے پر تھے ‘تو ایک جلسے سے خطاب کے دوران ایک سادہ سے دیہاتی پنجابی سے ایک صحافی نے پوچھا کہ یہ شخص (محمد علی جناح) جوکچھ کہہ رہا ہے ‘ آپ کو یہ سمجھ آرہا ہے ‘ تودیہاتی نے ترنت جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اگرچہ ان کی باتوں کی پوری سمجھ تو نہیں آرہی لیکن مجھے یہ مکمل یقین ہے کہ یہ شخص جو کچھ بھی کہہ رہا ہے ‘ سچ کہہ رہا ہے اور ہمارے مفاد کے لئے کہہ رہا ہے ۔اس کو قرآنی اصطلاح میں عین الیقین کہتے ہیں ۔ جب عوام کو اپنے کسی لیڈر و رہنما کے بارے میں عین الیقین حاصل ہوجائے ‘ تو لوگ اس پر تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو عوام میں جو محبویت حاصل ہوئی ‘ اسی کے طفیل پاکستان وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد پھر اگر کسی قائد کو یہ مقام حاصل ہوا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ ان کوعوام سے جو محبت حاصل ہوئی اس نے عوام کوضیاء الحق کے کوڑے اور جیل خوشی خوشی برداشت کرنے کا حوصلہ دیا آج بھی پی پی پی جہاں کہیں موجود ہے اس میں ذوالفقار علی بھٹو ہی کی قربانی کے اثرات ہیں۔ پی پی پی کوذوالفقار علی بھٹو اور بی بی بے نظیر کی شہادتوں ہی نے زندہ رکھا ہے ۔
بھٹو صاحب کے بعد آج اگر کسی کو عوام کی بے پناہ محبت وعقیدت حاصل ہوئی ہے تو وہ کسی کو
اچھا لگے یا برا ‘ عمران خان ہی ہیں ۔ عوام ان پر بلا مبالغہ جان چھڑکتی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ تیرہ جماعتوں کا اتحاد ان کے خلاف انتخابات لڑنے سے حیلے بہانوں سے کترا رہا ہے ۔ وزیر داخلہ پاکستان اپنے قائدین کی خواہش کی تکمیل کے لئے کئی بارعمران خان کوپس زندان کرنے کا منصوبہ بروئے کارلانے کی کوشش کرچکا ہے لیکن جب موسم سرما کی یخ بستہ نصف شب کو کبھی بنی گالہ اور کبھی زمان پارک اس کے عشاق اپنے چھوٹے بچوں سمیت پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ے ک جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اپنے ادارے (اسٹیبلشمنٹ) کوبہت برجستہ اوروقیع مشورہ دیا ہے کہ پاکستانی عوام کے دلوں میں پاک آرمی کی بڑی محبت و عقیدت ہے لیکن اس وقت موجودہ حکومت کی مبینہ خفیہ طرف داری کے سبب ان کے اعتقاد و ایقان میں تزلزل آرہا ہے ‘ کیونکہ اس وقت عمران خان پاکستانی عوام کی ضد بن چکے ہیں ‘ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاک افواج ملک و قوم کی حفاظت و دفاع کے مقدس مشن کے لئے اپنے آپ کو یکسو کرکے پاکستان کی اس سیاست کاذبہ سے اپنے آپ کو صحیح معنوں میں الگ تھلگ کرے البتہ اپنا دبائو سیاسی جماعتوں کے قائدین پرڈالتے ہوئے ان کو یہ ٹاسک دے دیں کہ سب مل کر پاکستان کا سرفہرست مسئلہ حل کرنے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائیگی کیونکہ اس پرملک وقوم
کی بقاء کا دارومدار ہے ۔ اس وقت آئی ایم ایف کی طرف سے دبائو کے سبب فروری سے پٹرول و گیس وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کا جوحکم ہوا اور 600ارب روپے کا منی بجٹ لانے کی تیاریاں ہوئی ہیں اور اس کی وجہ سے مہنگائی کاجوطوفان بدتمیزی آنے والا ہے ‘ اس نے عوام کو سخت بے یقینی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ہمارے معاشی ماہرین دن رات کھلم کھلا عوام کے سامنے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کی خبریں دے رہے ہیں اور ایک ڈالر 300 روپے تک بڑھنے کی نوید بھی سنا رہے ہیں اور لگتا بھی یہی ہے کہ بہت جلد ڈالر روپے کی بے قدری 300تک لے جاکر رہے گا جس کے نتیجے میں عوام کو دال روٹی کا بھائو معلوم نہیں ‘ بھول جائے گاجبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے درمیان بیان بازیوں کی جو رسہ کشی جاری ہے اس نے عوام کو بے یقینی اور سخت ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد دونوں صوبوں میں جونگران حکومتیں قائم ہوئی ہیں ‘ اس پرعوام کو شدید تحفظات ہیں ‘ کروڑ پتیوں ‘ صنعتکاروں ‘ سمدھیوں اورپی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اقرباء و رشتہ داروں کو کمال مہارت سے جمع کیا گیا ہے ۔ عوام کے غیر متنازعہ نمائندوں اجلے کردار کے علماء اور دانشوروں کا اس نگران کابینہ میں نام ونشان تک نہیں۔پاکستان میں آئین و قانون پرعمل درآمد تو بس اپنے مفادات ہی کے لئے کہیں ہوا ہو ‘ تو ہوا ہوگا ‘ ورنہ باقی تو یہ حال ہے کہ نگران حکومتوں کے قیام کے بعد گورنر صاحبان جو نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کے آئینی طورپرپابند ہیں ‘ ٹس سے مس نہیں ہو رہے ۔ آئیں بائیں شائیں اور اگرمگرکے ذریعے اس کوشش میں ہیں کہ
انتخابات اگر دو دن بھی متاخر کئے جا سکتے ہیں تو کر دینے چاہئیں کیونکہ عمران خان کے آنے کا خطرہ جو ہے ۔ اسی چیز سے پاکستان میں ہر شعبہ گو مگو کا شکار ہے ۔ گویا ایک انجماد سی ہے جو ہرچیز پر طاری ہو کر قوم کوبے یقینی اور غیر یقینی صورت حال سے دو چار کر چکی ہے جو ملک وقوم کے مستقبل کے لئے سخت تشویش کاباعث ہے ۔انتقامی سیاست نے معیشت وصنعت کا پہیہ جام کر رکھا ہے ۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ایک آدمی نے دوسرے کو منشی کہا ۔ تو اس نے گویا ناقابل معافی گناہ کیا۔ اس لئے وہ اس قابل ہے کہ اسے دہشت گردوں کی طرح برتا جائے ۔
ان تمام عوامل نے آج پاکستان اور اس کے عوام کو اس حد تک بے یقینی میں مبتلا کیا ہے کہ صبح اٹھتے ہیں تو سب سے پہلے ٹی وی کھولتے ہیں کہ پاکستان میں رات خیریت سے گزری ہے؟بھارت کی میڈیا شرارتاً پاکستانی عوام سے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہے اور سوشل میڈیا پرعاصمہ جہانگیر کی پاک افواج کو سیاست سے کنارہ کش ہونے پرزور دینے کی کلپس وائرل ہو رہی ہیں اور اس کے ساتھ مشرقی پاکستان میں 1971ء میں پاک افواج کے سرینڈر ہونے کی فلم بھی وائرل کی جارہی ہے ۔ لہٰذا اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ پاک افواج سیاستدانوں کو یک نکتی ایجنڈے دے دیں کہ ”سب سے پہلے پاکستان ”غیر جانبدارانہ اورصاف و شفاف انتخابات کے ذریعے جو لیڈر سامنے آئے ‘ اس کا ایک ہی مشن ہوکہ پاکستان جس مقصد کے لئے قائم ہوا تھا اس میں وہ اپنا بھر پر کردار ادا کرے ۔ بس یہی سیاست ہے ورنہ ڈریں اس دن سے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہوکرسڑکوں پر آکر بہت بڑا نقصان کر بیٹھیں اور بعد میں سب کو پشیمانی ہو لیکن کوئی فائدہ نہ ہو۔ کہ ہائے اس زور پشیماں کا پشیمان ہونا۔

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد