مشرقیات

ٰیہ ہم تھے جو اول روز سے آپ کو بتا رہے ہیںکہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھتا ہم دیکھیں گے اور یا رلوگوںکو تب سمجھ بھی آجائے گی کہ پیالی میں طوفان کیسے اٹھتا ہے ۔آپ کو ہزار بار یہ بھی کہا ہے کہ انکل سام جب اپنی فوجوں کا افغانستان سے انخلا کررہے تھے تو اس موقع پر انہوںنے امریکی کی دل جوئی کرتے ہوئے کہا تھا ”فکر ناٹ !ہمارے پاس اپنا کام نکالنے کے اور بھی طریقے ہیں اپنے فوجی مروائے بغیر اور پہلے سے کہیں کم خرچ کرکے انہیں ناک رگڑنے پر مجبور کردیں گے جو پیالی میں طوفان اٹھانے کشاں کشاں کابل کے سرینا ہوٹل جا پہنچے تھے ۔آپ تب سے دیکھ رہے ہیں کہ ہر محاذ پر انکل نے ہمیں سبق پڑھانا شروع کر رکھا ہے ۔معاشی مجبوری کے ہاتھوں دردر کی ٹھوکریں ہوں یا سفارتی تنہائی دور کرنے کے لیے سات سمندر پار کے پھیرے سب کے ڈانڈے انکل کی ہمارے بارے میں پالیسی سے ملتے ہیں جو افغانستان سے انخلا کے وقت اگست 2021میں اعلان کی گئی تھی انکل نے کہاتھا کہ ہم معاشی دبائو کے ذریعے بھی کام نکالیں گے اور سفارتی محاذپر بھی سرگرم تعاقب جاری رہے گا۔گزشتہ ڈیڑھ سال کی اس پالیسی کا نتیجہ ہی ہے کہ ہم معاشی طورپر تباہ حال ہیں تو سفارتی محاذپر بھی سب کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس رضامندی کے چکر ہی میں ہم سے تقاضے ہورہے ہیں ”ڈومور”۔یقین کرلیں کہ اس بار آپ اوباما وغیرہ کے ڈومور کے مطالبوںکو بھی بھول جائیں گے ۔کشمیر ،فلسطین اور افغانستان کے حوالے سے ہمیں اپنی لائن پر لانے کے لیے انکل ابھی کھل کر سامنے نہیں آئے تاہم اندر خانے جو کھچڑی پک رہی ہے اس کی خوشبو خبرداروں نے سونگھ کر آگاہ کیا ہے کہ عرب پتیوںکے ذریعے ہمیں قائل کیا جارہا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے اور اس بدلتی دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے پرانے مسلے مسائل ختم کرنے کا وقت ہے ان سے چمٹے رہنے کی صورت میں ہمارا کوئی حامی وناصر اس دنیا داری کے چکروں میں نہیں ہوگا۔اس لیے جان لیں کہ آپ پر دبائو ڈالنے کا چکر ابھی ختم نہیں ہوگا ۔سرخم تسلیم کرانے کے لیے ابھی ڈومور کی ابتدا ہے اور کھل جائیں دوچار ملاقاتوں میں ،تب ہمیں معلوم ہوگا کہ خارجہ محاذ ہو یا معاشی گھن چکر سب سے نکلنے کی راہ کی قیمت ہمیں چکانے کے لیے اپنا خون پسینہ عملی طور پر ایک کرنا پڑے گا۔خاکم بدہن تازہ ترین سانحہ پشاور اس ضمن کی ابتد ا لگ رہاہے ابتدا میں ہی رونگٹے کھڑے ہوگئے ہوں تو انتہا کا سوچ کر آپ خود ہی اندازہ لگا لیںکہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی خواہش ہمیں کتنی مہنگی پڑرہی ہے ؟اب سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے کیسے نکلا جائے ؟سیاسی قیادت ہوش مندی کا مظاہرہ کرے ،مل بیٹھ کر ایک ایسی ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے جو کسی خارجی قوت یا مقامی گروہ کی بجائے اس ملک وقوم کے مفاد کی ترجمان ہو۔جب تک ہم تقسیم رہیںگے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے