پولیس لائنز پشاور میں جب قیامت صغریٰ برپا ہوئی تو جہاں شہری قطار میں لگ کر خون کے عطیات دینے کی مثالی سعی کی وہاں ریسکیو ون ون ٹوٹو کے جوانوں اور عملے نے جس طرح دن اوررات بھرملبہ ہٹا کر پھنسے ہوئے افراد اور زخمیوں کونکالنے کی جدوجہد کی وہ جذبہ قابل تحسین ہے اس طرح کے جذبات و کردار کا مظاہرہ زندہ قوموں کا شیوہ ہے ریسیکو کے ادارے کے جوانوں اورعملے نے صرف اپنا سرکاری فرض نہیں نبھایا بلکہ دینی قومی اوراخلاقی فرائض کے تمام تر تقاضے پورے کرکے قوم کا دل جیت لیا ان کی یہ کاوشیں بجا طور پرخراج تحسین اور داد کا مستحق ہے جس کے عملی اعتراف کے طورپر نگران حکومت کو اس آپریشن میں شریک جوانوں کی بصورت تقریب پذیرائی اور نقد انعامات کے ذریعے حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ عوامی خدمات کی احسن انجام دہی پر یہ ادارہ کم ہی مدت میں عوام میں مقبول ہوا ہے دیگر سرکاری اداروں کے برعکس عوام اس سے نالاں نہیں بلکہ ان کی کارکردگی کوسراہتی ہے۔ریسکیو ون ون ٹوٹو کی کارکردگی ہرجگہ نظرآتی ہے اور عوام کو جب بھی اورجس موقع پراس کی خدمات کی ضرورت پڑتی ہے محکمے کے اہلکار مستعدی اور خوش دلی کے ساتھ بروقت پہنچ کرحتی المقدور خدمت کی سعی کرتے ہیں جس کا عوام کی جانب سے سراہنا اور اطمینان کا اظہار فطری امر ہے ۔ ریسکیو ون ون ٹو ٹو نے بڑی مشکل حالات میں جو خدمات انجام دیں اور ہر مشکل کے وقت ان کی جو کارکردگی سامنے آتی ہے اسے دیکھ کر تمنا ہوتی ہے کہ کاش دیگر سرکاری ادارے بھی اس کی تقلید کریںان کی خدمات دیکھ کراس ضرورت کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی تحصیل کی سطح پر توسیع ہی کافی نہیں بلکہ سخت اور نامساعد حالات سے نمٹنے کے لئے ادارے کی دیگر احتیارجات پورا کرنے اور سازو سامان سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے ریسکیو کے عمل کو تیز بنانے کا تقاضا ہے کہ ان کو ایئرایمبولینس بھی مہیا کی جائے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے لئے ہر وقت دستیاب رہے ۔ کوشش کی جانی چاہئے کہ ادارے کاوقار اور خدمات کا معیار برقرار رہے اور اس پر دیگر سرکاری ‘محکموں کی پرچھائیاں نہ پڑنے دیا جائے ۔ہنگامی حالات کو صرف ریسکیو ون ون ٹوٹو ہی پر نہ چھوڑا جائے بلکہ دیگر اداروں کی جانب سے بھی بڑے واقعات میں پوری معاونت ہونی چاہئے تاکہ جلدی سے کام کونمٹایا جاسکے اور جلد سے جلد مدد پہنچانے کی ذمہ داری پوری کرکے خطرات میں گھرے لوگوں کونکالا جائے۔
