ناقابل یقین واقعہ

حساس ترین علاقے میں پولیس ہیڈکوارٹر پر حملے نے شہریوں کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے کہ جب پولیس کے مرکزی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا ہے تو پھر وہ کس طرح سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ واضح رہے کہ ملک سعد شہید پولیس لائنز کے سامنے سول سیکرٹریٹ کے دفاتر واقع ہیں اور یہ سنٹرل جیل پشاور سے متصل ہے جس میں سی سی پی او، ایس ایس پی آپریشنز، ایس ایس پی انوسٹی گیشن، سیکیورٹی و دیگر افسران کے دفاتر کے علاوہ سی ٹی ڈی اور فرنٹیئر ریزرو پولیس (ایف آر پی) کے دفاتر بھی واقع ہیں۔اس بناء پر اسے ایک مرکزی محفوظ جگہ ہونی چاہئے تھی مگر یہ بھی حیرت انگیز طور پرمحفوظ نہ رہا یا پھر پولیس اس کی حفاظت میں ناکام رہی ابھی تک اس کی ذمہ داری کسی پرعائد کرنے یا پھر کسی جانب سے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کا عمل بھی معمہ بنا ہوا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) سے منسوب ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ پشاور پولیس لائنزپرحملہ افغانستان میں طالبان کمانڈرکی ہلاکت کااور حملوں کے بدلے سیریز کا چوتھا حملہ ہے دریں اثناء ٹی ٹی پی نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مساجد ومدارس اور عوامی مقامات پرحملے ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔واضح رہے کہ یہ جگہ باآسانی قابل رسائی نہیں بلکہ پولیس لائنز میں داخلہ عام شہری کا داخلہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم دہشت گرد باآسانی و بلامزاحمت پولیس لائنز کی مرکزی مسجد تک پہنچ گیا اورجو واقعی باعث حیرت امر ہے۔سنٹرل پولیس لائنز میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی راستہ ہے جس پر آنے کے لئے پشاور چھائونی میں داخل ہونا پڑتا ہے اس چیک پوسٹ پر عمومی طور پر شناخت نہیں دیکھی جاتی اسکے بعد سب سے پہلے سول سیکرٹریٹ میں داخل ہوتے ہوئے چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے اور اپنی شناخت کروانی پڑتی ہے دوسری چیک پوسٹ کے بعد پولیس لائنز میں داخل ہوتے ہوئے ایک اور چیک پوسٹ سے گزرنا پڑتا ہے جو داخلی راستے پر ہے پیدل چلنے والوں کے لئے الگ راستہ ہے وہ ایک مرتبہ جامہ تلاشی سے گزرتے ہیں اور پھر پارکنگ ایریا کے بعد پولیس لائنز میں داخل ہونے کے لئے اپنے نام کی انٹری کراتے ہوئے متعلقہ شخص کا نام بتاتے ہیں انٹری کراتے ہوئے اپنا شناختی کارڈ وہیں جمع کرانا ہوتا ہے پھر پولیس لائنز کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر حصے کے لئے الگ الگ رنگ کا کارڈ رکھا گیا ہے ملاقاتی کو جس شخص یا دفتر میں کام ہے اس حصے کے لئے متعلقہ رنگ کا کارڈ دیا جاتا ہے اور ملاقاتی کو پولیس لائنز میں کسی اور جگہ جانے کی اجازت نہیں ہوتی اتنی سخت سکیورٹی کے باوجود حملہ آور مسجد تک پہنچ گیا اور اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔یہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا وقوعہ کے روز ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی زیرصدارت اجلاس طلب کیا گیا تھا جس کے لئے پشاور کے مختلف تھانوں میں تعینات انویسٹی گیشن افسران اور اہلکار اجلاس کے لئے آئے تھے جبکہ نماز ظہر کے لئے وقفہ کے دوران کئی انویسٹی گیشن اہلکار مسجد میں موجود تھے جب یہ سانحہ پیش آیا۔ ان سطور کی اشاعت تک معلوم نہیں تفتیشی عمل میں کتنی پیشرفت ہوئی ہوگی جس سے قطع نظر بظاہر ایسا نظرآتا ہے کہ دہشت گردوں کا ضرور بضرور پولیس لائن کے اندریا پھر سکیورٹی کے نظام سے وابستہ افراد سے کوئی نہ کوئی اور کسی نہ کسی طرح رابطہ تھا اس کے بغیر اندر کے حالات معلوم کرنا کہ اس دن پولیس لائن میں کیا سرگرمی تھی جس میں شرکت کے لئے پولیس افسران اورعملے کی کافی تعداد آئی اس
قدر حساس اطلاع کے نہ ہونے کے باوجود اس کارروائی کااتفاقیہ طور پر ہونا بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے اس سے قطع نظر اس قدر محفوظ علاقہ میں اتنی تلاشی اور چیک پوسٹوں سے گزر کر مسجد کی پہلی صف تک بلا روک ٹوک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا اس امر کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے کہ خود کش جیکٹ اوربارودی مواد باندھے خود کش حملہ آور داخل ہوا یاپھراس کو احاطے ہی میں سہولت کاری حاصل تھی بہرحال یہ ایک حساس معاملہ ہے جس کی جامع تحقیقات کے نتیجے ہی کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے البتہ ناکامی بڑی واضح ہے جس کی ذمہ داری پولیس کے صوبائی سربراہ اور شہری پولیس کے سربراہ پر براہ راست عائد ہوتی ہے ان کے اب اپنے عہدوں پر رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا بہتر ہوتا کہ وہ از خود عہدے چھوڑ کر کوتاہی کا ا قرار کرتے ان کی جانب سے لاعلمی اورکوتاہی کا اعتراف توکیا گیا ہے مگر عہدے سے مستعفی ہونے پر اب بھی آمادگی کا اظہار نہیں کیاگیا جملہ معاملات اس امر کے متقاضی ہیں کہ کوتاہی کے مرتکب تمام افسران اور عملے کے خلاف تحقیقات کے بعد کارروائی کی جائے اس سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ پوری پولیس کا نظام ناکارہ کیسے بنایا گیا اورکسی کو کانوں کان خبر تک کیسے نہ ہوسکی؟ ۔اس قدر حساس موقع پراس قدر غفلت اور نااہلی صوبہ بھر کی پولیس کے لئے چشم کشا ہے جس کی روشنی میں پوری پولیس فورس کواپنی فعالیت اور تیاریوں کا ازسر نوجائزہ لیناچاہئے ۔

مزید دیکھیں :   مہنگائی کا ''بائیکاٹ''