کتنے سجدوں کا قتل عام ہوا؟

غم واندہ کی بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ بندہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتا ہے معاشرے میں ایسے لاتعداد لوگ آپ کو مل جائیں گے جن کو خاموشی اور چپ نے جیسے بے حس کر رکھا ہو ‘اندوہناک حادثات نے ان کی زبانوں کو گنگ کر رکھا ہے ‘یہ نہیں کہ انہیں کسی دکھ کا احساس نہیں ہوتا ‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی حالت بالکل اس مریض کی طرح ہے جو کسی حادثے ‘کسی سانحے کی وجہ سے ”کوما” میں چلا جائے ‘ گزشتہ کئی برس سے ہم جن سانحات کا شکار ہیں بلکہ ایک تسلسل سے غلط قومی پالیسیوں کی وجہ سے حادثات اور سانحات کو ہمارا مقدر بنا دیا گیا ہے ان کی وجہ سے ایک عجیب قسم کی بے حسی اور لاتعلقی نے ہمیں گھیر رکھا ہے ‘ اس صورتحال کی ذمہ داری کس کے سرباندھی جائے یہ اتنا آسان سوال بھی نہیں بلکہ اس کی پیچیدگیوں نے ایک اور کیفیت کو جنم دیا ہے ‘ اور ہم میں سے کتنے ہیں جو اصل ذمہ داروں کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں؟ بلکہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اچھے دل گردے رکھنے والوں کو بھی اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ سچ کہہ کر مصیبت کو آوازدیں ‘ شروع شروع میں جب چھوٹے چھوٹے واقعات رونما ہوئے تو آوازیں اٹھنا شروع ہوجاتی تھیں’ یہاں تک کہ بڑے سانحات پر بھی ہم میں سے اکثر چیخ اٹھتے تھے ‘ انہیں کسی نہ کسی طور اپنے جذبات کے اظہار کا موقع مل ہی جاتا تھا ‘ دہشت کی کچھ علامات ہوتی ہیں ‘ ان علامات کو مکمل بیماری بنانے میں ہم نے خود کتنا حصہ ڈالا اس بارے میں تحقیقات بالکل اسی بنیاد پر ہونی چاہئیں جیسا کہ دنیا بھر کے سائنسدان اور ماہرین مختلف بیماریوں کے علاج معالجے کے لئے سائنسی لیبارٹریوں میں دن رات تحقیقات کرکے ان کی روک تھام کے لئے نئی ادویات ایجاد کرتے ہیں اور پھر ان ادویات کو بھی زیادہ بہتر بنانے کے لئے مزید تحقیقات میں لگے رہتے ہیں ‘ معاشرے میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کے تدارک کے لئے بھی ایسے ہی اقدامات کی ضرورت ہے ‘ علامات بھی سامنے ہیں اور نتائج بھی سب کو معلوم ‘ جو سانپ ہم نے خود اپنی آستینوں میں پالا تھا اس نے بالآخر ہم کو ہی ڈسنا شروع کر دیا تھا اور اس کیفیت نے ہمیں ایک ایسے نشے میں مبتلا کر دیا کہ جیسے بعض لوگ خطرناک نشے کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ انہیں نشہ آور اشیاء کے استعمال سے بھی وہ سکون نہیں ملتا ‘ یوں وہ مجبور ہو کر بچھو اور سانپوں سے خود کو ڈسوا کر نشے کی ایک انوکھی کیفیت سے لطف اٹھاتے ہیں ‘ چھوٹے چھوٹے واقعات نے سانحات کی شکل اختیار کر لی تو مسلم مینا بازار کے قریب محلہ چڑویکوبان میں جس طرح دہشت گردوں نے لاتعداد بے گناہ جانوں سے خدا جانے کس بات کا انتقام لیا تو ہم اور ہماری طرح کے اہل قلم بھی چیخ اٹھے تھے ‘ اس موقع پر راقم نے ایک نظم لکھ کر اہل پشاور کے ذہن و دل میں قیامت خیز جذبات کا اظہار یوں کیا تھا
مرے پشاور!
تمہارے ماتھے پہ خون کی یہ لکیر کیسی؟
کون ہیں جو تمہارے چہرے پہ
قتل و غارت گری کے انمٹ سیاہ دھبے
لگا رہے ہیں؟
تمہارے آنگن میںاگنے والے گلاب
اب کیوں نہیںمہکتے؟
چمکتی صبحوں ‘ مہکتی شاموں کی سرزمین میں
یہ خوف کیسا؟
یہ بم بہ کف اور کتاب دشمن
نقاب چہروں پہ ڈال کر
کیوں تمہارے بچوں کی خواب نگری
اجاڑنے پر تلے ہوئے ہیں؟
یہ کون ہیں جوتمہاری عظمت کو
خاک میں یوں ملا رہے ہیں؟
وہ خوشبوئیں اب کہاں ملیں گی؟
جو تیری بو’ باس میں رچی تھیں
وہ امن کیسے بحال ہو گا؟
جو تیرے ماحول میںرچا تھا!
وہ پیار اب کہاںملے گا؟
جو تیری تہذیب میں بسا تھا
مرے پشاور!
خدا تجھے پھر گلاب و سروسمن کا مسکن
بنا کے امن و سکوں سے بھر دے
مرے پشاور!
مرے پشاور!
سانحہ چڑویکوبان کے بعد بڑے حادثے اور سانحے بھی جاری رہے ‘ اور ہمیں مختلف مواقع پر مساجد ‘ مذہبی مقامات ‘ امام بارگاہوں ‘ چرچ ‘ مندروں ‘ گردواروں کے اندر بھی خود کش دھماکوں کے نتیجے میں بے گناہوں کے لاشے اٹھانے پڑے ‘ بعض سیاسی جماعتوں کے اہم اکابرین کی قربانیوں کا سامنا کرنا پڑا ‘ اور پھر سانحہ اے پی ایس نے تو جیسے پورے شہر کی سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب کر لی ‘ یہ اتنا بڑا سانحہ تھا کہ اس کے اثرات آج تک محسوس کئے جارہے ہیں ‘ لاتعداد خاندان اپنے معصوم اور پھول جیسے بچوں کی یادوں کو سینے سے لگائے ان کے نام کی شمعیں اب بھی روشن کرتے اپنے آنسوئوں پر قابورکھنے میں ناکام رہتے ہیں ‘ اس سلسلے کی تازہ کڑی سوسے بھی زیادہ شہداء کے جنازے اٹھانے کے وہ مناظر ہیں جن کو میڈیا پھر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ‘ اس حوالے سے بھی اہل قلم نے اپنی ذمہ داری کو نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ‘ اس ضمن میں خیبر سے کراچی تک قلمکاروں نے اس سانحے پر جو کچھ لکھا ہے اگراسے اکٹھا کیا جائے تو ایک پوری کتاب مرتب کی جاسکتی ہے ‘ ہماری ریڈیو کے ایک ساتھی جن کا تعلق ملتان سے ہے ‘ محترمہ کوثر ثمرین نے کیا خوب کہا ہے ‘ سانحہ پشاور کے شہداء کو سلام کے عنوان سے وہ یوں رقمطراز ہیں
جبرو دہشت کا اہتمام ہوا
خون آشام کوئی کام ہوا
شہر گل تیری ایک مسجد میں
کتنے سجدوں کا قتل عام ہوا؟
اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم مزید کتنے سانحے برداشت کریں گے؟ اے ”خدا کی مرضی” قرار دے کر کیا ہم اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑا سکتے ہیں؟ سوچنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات