دووار تھیڑز میں سینڈوچ بنتاپاکستان

اسرائیل نے اصفہان کے علاقے میں ڈرون کے ذریعے ایران کی سات فوجی تنصیبات پر حملے کئے ہیں ان میں پاسداران انقلاب اسلامی کا ہیڈ کوارٹر ، القدس فورس سپیشل فورسز ہیڈ کوارٹر’ آئی ریفائنریز، ڈرون پروڈکشن فیکٹریز ،ہمدان اور کیراج میں واقع ایرانی فوجی بیسز اور اسلحہ ڈپو شامل ہیں ۔ایران نے ان حملوں کا ڈائون پلے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے ائر ڈیفنس سسٹم نے ڈرونز کو تباہ کیا اور کئی ڈرون جال میں پھنس کر ناکارہ ہوگئے۔اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بھی ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران نے یوکرین کی جنگ کے بعد روس کو ڈرون فروخت کئے ہیں جو اب وہ اس جنگ میں استعمال کر رہا ہے اسی طرح ایران اپنی میزائل ٹیکنالوجی کو مشرق وسطیٰ کے ملکوں کو دھمکانے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ایران میں ایک طرف رجیم چینج کے لئے عوامی مظاہروں کاسلسلہ امریکہ اور یورپی ملکوں کی سرپرستی میں جاری ہے تو دوسری طرف اب اسرائیل نے باہر سے ایران پر دبائو بڑھانے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ایران پر ڈرون حملے اس وقت ہوئے جب امریکہ اور اسرائیل اس خطے میں ایک بڑی فوجی مشق کرکے فارغ ہو چکے ہیں ۔اس مشق کا ہدف بھی اسرائیل کو علاقے میں درپیش خطرات ہی ہوئے ہوں گے ۔ ان خطرات میں فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کے بعد ایران کا اہم نمبر ہے ۔یہی وہ و قت ہے جب فلسطین میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا ایک نیا دور شروع ہورہا ہے ۔اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں نصف درجن فلسطینیوں کی شہادت کے جواب میںمشرقی یروشلم کی ایک فدائی حملے میںیہودی عبادت خانے پر حملے میں ساٹھ افراد مارے گئے ہیں اور اسرائیل نے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے ۔اسرائیل کے ایک اخبار ہیرٹز نے اسے فلسطین اسرائیل تشدد کا سائیکل قراردیا ہے یعنی یہ کہ اسرائیل چند فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے جواب میں فلسطینی اسرائیلی فوج پر حملہ کرتے ہیں اور
اسرائیل پھر غضبناک ہو کر فلسطینیوں کو قتل کرتا ہے اور یوں یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا ہے ۔ ایران نے ان حملوں پر بہت محتاط ردعمل ظاہر کیا مگر اس بات کا امکان موجودہے کہ ایران کہیں نہ کہیں اس کا بدلہ ضرور لینے کی کوشش کرے گا ۔ فلسطین شام اور لبنان اس کے لئے مناسب مقامات ہیں۔ایران پر حملوں کے ذریعے امریکہ نے عین اس وقت جنگ کا ایک اور الائو دہکا دیا ہے جب دنیاابھی تک یوکرین کی جنگ کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔یوکرین کی جنگ امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک اور روس کے درمیان یوکرین پر اثر رسوخ کی جنگ تھی ۔برسوں یہ کشمکش سرد جنگ کے طور پر جاری تھی مگر روس نے جب خطرات کو بڑھتا ہوا دیکھا تو یوکرین پر باضابطہ حملہ کردیا ۔یوکرین کی جنگ کے اثرات روس اور یوکرین تک محدود نہ رہ سکے بلکہ یہ مضر اثرات پورے یورپ کی معیشتوں پر اثر انداز ہونے لگے ہیں۔برطانیہ ان ملکوں میں سرفہرست ہے جہاں روسی تیل کی رسد ختم ہونے کے باعث معیشت سکڑنے لگی ہے ۔توانائی کا ایک بحران اس ملک کو متاثر کرنے لگا ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لئے بجلی کی بچت کی مہم چلائی جانے لگی ہے۔یہ یورپ کے خوش حال ملک اور فلاحی ریاست کا حال ہے ۔ یورپ تو یوکرین کی جنگ کا براہ راست فریق تھا اس بحران نے پاکستان جیسے ملکوں کو جن کا یوکرین سے کوئی سیاسی مذہبی یا جغرافیائی تعلق بھی نہیں متاثر کر دیا تھا ۔جنگ کے روز عمران خان کا دورہ ماسکو ان کی حکومت کے خاتمے کا ایک اہم جواز بنا تھا اور روس کی مذمت سے انکار اور یورپی سفیروں کے خط کے جواب میں جلسہ ٔ عام میں ”ہم کوئی غلام ہیں کیا ” کا نعرہ ان کی حکومت کے زوال کی وجوہات میں شامل تھا اور ان کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی کہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے ایک سیمینار میں روس کی کھلی مذمت کرکے یورپی یونین کا مطالبہ پورا کر دیا تھا ۔یوں ایران میں جنگ کی آگ کا الائو روشن ہوتا ہے تو پاکستان اس کے ضرررساں اثرات سے کسی طور محفوظ نہیں رہ سکتا ۔ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے ۔دونوں کے درمیان سماجی او رمذہبی تعلق بھی ہے ۔ایران کا گھیرائو کرنے والوں کا گری پڑی معیشت کے حامل ملک سے ضرور یہ مطالبہ ہوگا کہ وہ اس ”کارِ خیر ” میں اپنا حصہ ڈال کر ثواب ِ دارین حاصل کرے۔ماضی میں پاکستان ایسے دبائو کی مزاحمت کرتا رہا ہے ۔حتیٰ کہ عمران خان سے افغانستان پر حملوں کے لئے ائر بیسز فراہم کرنے کے دبائو کے ساتھ ساتھ ایران پر حملے میں مدد دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا مگر معاملے کی نزاکت اور حساسیت کو دیکھتے ہوئے انہوںنے دونوں ہمسایوں کے خلاف جنگ میں اپنا کندھا فراہم
کرنے سے صاف انکار کیا تھا اور آج وہ اسی حرف انکار کی قیمت چکار ہے ہیں۔ایران پر جنگ مسلط کرنے سے یوکرین کی جنگ سے رہ جانے والی کسر پوری ہوجائے گی اور عالمی معیشت کا مرض مزید لادوا ہوکر رہ جائے گا ۔یوکرین جنگ نے یورپ سمیت دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا دیا تو تیل کی پیداوار کے حامل ایک بڑے ملک ایران پر جنگ اس بحران کو بڑھا دے گی۔پاکستان جیسی کمزور اور ڈولتی معیشت پر یہ ایک نیا ڈرون حملہ ہوگا ۔اسرائیل اور اس کے سرپرستوں اور علاقائی ہمنوائوں کی پوری خواہش ہو گی یہ پاکستان اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کرے مگر یہ ایک حماقت ہو گی ۔ایران کے ساتھ ہی افغانستان کا محاذ بھی کھولنے کی تیاری ہے ۔مغربی ممالک طالبان کے اقتدار کو قبولیت اور سند ِ جواز عطا کرنے سے انکاری ہیں ۔ایمن الظواہری کو قتل کرنے والے ڈرون حملے کے ذریعے افغانستان پر حملوں کی ریہرسل کی گئی ہے ۔افغانستان پر حملوں کے لئے پاکستان سے اڈوں کی فرمائش برقرار ہے بلکہ اس پر عملی پیش رفت ہو چکی ہے۔انہی اڈوں کو ایران کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو ایران اور افغانستان دونوں کے غیض وغضب کا نشانہ امریکہ اور اسرائیل تو بعد میں ہوں گے پاکستان قریب ترین ہمسائے کے طور پر پہلے نمبر پر ہوگا ۔یوں پاکستان جیسی کمزور اورناتواں معیشت کو ایران اور افغانستان کے درمیان سینڈوچ بنادیا جائے گا۔اس لئے ایران اور اسرائیل کی کشمکش کا مطلب صرف دوملکوں کی رسہ کشی نہیں بلکہ یہ عمل پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا ۔اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ وہ کئی عرب ریاستوں کو بھی شامل باجا کرکے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی مشترکہ جنگ بنا ئے۔دوسری طرف ایران بھی اپنی پراکسیز کو ہر کونے میں متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار