اندھیرے میں تیر چل رہے ہیں

حکومت خیبرپختونخوا نے پشاور کی مسجد میں ہوئے دھماکے پردوعلیحدہ ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں جو اس بات کی تحقیقات کریں گی کہ انتہائی محفوظ علاقے پولیس لائنز پشاور میں بمبار کی رسائی کس طرح ہوئی۔ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا ہے کہ مسجد میں بارودی مواد نصب تھا یا پھر خود کش حملہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ حملہ آور اور اس کے سہولت کاروں کے بارے میں بھی کوئی مصدقہ رپورٹ نہیں دی گئی۔ سانحہ پشاور کے حوالے سے ابتدائی اطلاعات پر حتمی رائے دینا قبل از وقت ہوگا، تحقیقات مکمل ہونے پر ہی ان سوالات کا جواب مل سکتا ہے جودھماکے کے بعدسے اٹھائے جارہے ہیںحکومتی زعما اور سیاسی قائدین سمیت زندگی کے مختلف شعبوں کے ذمہ داران کی جانب سے رنج و غم کا اظہار بجا مگر قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے دہشت گردوں کے نشانہ پر آئے شہر کے حساس علاقوں میں سے ایک میں دہشت گرد جتنی آسانی سے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوا اس سے خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کے ساتھ پولیس لائنز کی سکیورٹی کے امور پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔10کلو بارود سمیت دہشت گرد کا نمازیوں کی پہلی صف میں موجود ہونا یقینا اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ واردات اندرونی سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ کہنا کہ حملہ آور2دن سے پولیس لائنز کے اندر رہ رہا تھا یقینا کسی معلومات کی بنیاد پر ہوگا۔ تحقیقات کرنے والوں نے اس بنیاد پر اب تک کیا معلومات حاصل کیں اس پر شہریوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ اسی طرح یہ سوال بھی اہم ہے کہ گزشتہ اکتوبر میں کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے عام جنگ کے اعلان کے بعد شہریوں اور خود حساس مقامات کی سکیورٹی کے لئے خصوصی پلان کیوں وضع نہ کیا گیا۔ جہاں تک اس سانحہ کی ابتدائی طور پر ذمہ داری قبول کرنے اور بعدازاں اس سے انحراف کے حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے بیانات کاتعلق ہے تو یہ شہریوں اور حکومت کی توجہ ہٹانے کی کوشش لگتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی قبل ازیں مساجد اور دوسرے مذہبی مقامات کو نہ صرف نشانہ بناتی رہی ہے بلکہ اس کے ذمہ داران فخریہ طور پر ان کارروائیوں کو اپنے جہاد کا حصہ بتاکر اعترافی بیانات جاری کرتے رہے۔ حالیہ اعترافی اور تردیدی بیان ہر دو کا مقصد فقط یہ ہے کہ تحقیقات کرنے والوں کو گمراہ کیا جاسکے۔ گزشتہ روز کے سانحہ کی المناکی اپنی جگہ اس حوالے سے یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں دہشت گردوں نے جس منظم انداز میں صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مذموم کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے اس کے ڈانڈے افغانستان سے جاملتے ہیں۔ چند دن قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پشاور کے ایک مضافاتی مقام سے9خودکش حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان گرفتاریوں کے بعد یہ بتایا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں خودکش بمباروں کی گرفتاری نہ صرف اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس سے پشاور اور دوسرے شہروں کو بڑے نقصان سے بچالیا گیا۔ گزشتہ روز پولیس لائنز کی مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے نے اس سوال کی اہمیت کو دوچند کردیا ہے کہ9خودکش حملہ آوروں کی گرفتاری کے آپریشن کے دوران کچھ دہشت گرد فرار ہونے میں بھی کامیاب ہوئے تھے نیز یہ کہ گرفتار شدگان نے ابتدائی تفتیش کے دوران اپنے دیگر ساتھیوں کے حوالے سے کیا معلومات فراہم کیں؟ ان گرفتار دہشت گردوں میں3افغان شہری بھی تھے۔ ذمہ دار حکام نے اس حوالے سے افغان حکومت سے رابطہ کیا؟ سوموار کا سانحہ پشاور اس امر کا متقاضی ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہ برتی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں گے اور حالیہ واقعہ کے سہولت کاروں کو جلدازجلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار