اچھی خبر یہ ہے کہپشاور میں ماحولیاتی قوانین کے ساتھ ہم آہنگی نہ رکھنے والی 10عمارتیں سیل کردی گئیں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ تحفظ ماحولیات نے مشترکہ آپریشن کیا ۔ صوبائی دارالحکومت میں پہلی بار یہ احساس دلایاگیا ہے کہ یہاں ماحولیاتی قانون کی خلاف ورزی کے حوالے سے سرکاری اداروں کوبالآخر ہوش آگیا ہے اور انہوں نے ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی اوراین اوسی لئے بغیر بڑی رہائشی و کاروباری عمارتیں سیل کرنے کااحسن عملی قدم اٹھایا گیا ہے ۔ قبل ازیں اس طرح کے عمل کی کوئی بڑی مثال شاید ہی ہوگی جس سے قطع نظر صوبائی دارالحکومت میں جس طرح بلندو بالاعمودی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں ان کی تعداد اگرسینکڑوں میں نہیں تو درجنوں میں ضرور ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اپارٹمنٹس کی تعمیر شروع ہوتے وقت ہی اس طرح کی کارروائی کیوں نہیں کی گئی اور اتنا انتظار کیوںکیاگیاکہ عمارتوں کے مالکان پبلسٹی کرکے اور ڈھانچہ کھڑا کرکے تقریباً ساری عمارت فروخت کرچکے جس کے بعد اس طرح کی کارروائی سے زیادہ متاثرہ فریق عمارت تعمیر کرنے والوں کی بجائے تو وہ انوسٹر یا فلیٹ و دکان و شورومز وغیرہ خریدنے والے مالکان ہوں گے اگر مناسب وقت پر کارروائی ہوتی تو وہ بروقت اورموثربھی ہوتا اور عوام کو بھی بروقت آگاہی ہوتی اب جبکہ عمارتوں کا ڈھانچہ کھڑا کیا جا چکا اور عمارتیں تعمیر کرنے والوں کے ساتھ مجبوراً فریق بننے کے لئے عوام بھی ہیں تو عدالتوں سے رجوع کرکے ریلیف کا امکان بڑھ جاتا ہے نیز اس طرح کی کارروائی کے بعد عموماً معاملات طے ہونے پر یا عدالتی احکامات کے تحت بامر مجبوری تعمیراتی کام جاری رکھنے کی آسانی ہو جاتی ہے اب بھی شہر میں ایسی عمارتوں کی کمی نہیں ہو گی کہ نہ صرف وہ بن کرفروخت بھی ہوئیں بلکہ لوگ رہ رہے ہوتے ہیں مگر ابھی تک ان کی این اوسی اور دیگر لوازمات کے معاملات طے نہیں یہاں تک کہ ملکیت اور ٹرانسفر کے معاملات بھی ادھورے پڑے ہوتے ہیں بہرحال اس کے باوجود یہ ایک اچھی کوشش ہے آئندہ کے لئے کوشش کی جائے کہ گربہ کشتن روز اول کامظاہرہ کیا جائے اورعمارت کی تعمیر کے لئے کھدائی کے موقع پر ہی کارروائی کرکے لوازمات کی تکمیل کے بعد تعمیراتی کام شروع کرنے کی اجازت دی جائے جو کام بروقت ہو وہی مناسب اور موثرہوتا ہے تاخیر مناسب نہیں ۔
