سوات تین بہنوں پر فائرنگ

وہ اتنی گہنگار تھی کہ اس کو قتل کردیا جاتا ؟

(عدنان خان )غیرت کے نام پر ایک ہی دن میں صوبے کے دو مختلف اضلاع میں دو مختلف قسم کے واقعات میں 3 خواتین زندگی کی بازی ہار گئیں گزشتہ ہفتے 22 جنوری 2033 کو سوات سنگوٹہ کے علاقے جمال اباد میں ایک نوجوان نے اپنی ہی تین بہنوں پر فائرنگ کردی ،جس سے ایک بہن موقع پر جاں بحق اور دو زخمی ہوگئیں ، محلے کے لوگوں نے مقتولہ کی لاش اور زخمی لڑکیوں کو ہسپتال منتقل کردیا ، جہاں دوسری بہن بھی اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئی ، واقعے کی ایف ائی آر کیمطابق منگلور کا رہائشی نصیر خان ولد اکبر خان جس کی عمر 20 سال سے کم بتائی گئی ہے کے خلاف اس کی بہن مسما ن نے پولیس کو درج رپورٹ میں کہا ہے کہ ہم تینوں بہنوں اور والدہ کے ساتھ صبح 10 بجے کے وقت بھائی نصیر خان نے تکرار کی اور گھر سے چلا گیا جس کے بعد والدہ پڑوسی میں موجود گھر میں تھی
جب بھائی واپس ہاتھ میں پستول لیے گھر آیا ، اور تینوں بہنوں پر فائرنگ کر دی ، جس سے ایک بہن جس مسما ر ، فائرنگ سے موقع پر جاں بحق ہوئی اور دوسری بہن مسما ع گردن پر لگ کر زخمی ہوئی ، پولیس کو درج رپورٹ کے مطابق مسما ع بھی ہسپتال میں زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئی ، اس واقعے کی رپورٹ میں ایک بہن جو کہ واقعے میں زندہ بچ گئی ہے چشم دید گواہ کے طور پر سامنے آئی ہے ، اس واقعے کے حوالے سے درج ایف ائی آر میں لکھا گیا ہے ، کہ نصیر خان نے اپنی بہن کو اس بنیاد پر قتل کیا ہے ، کہ اس نے ایک سال قبل پانی پسند سے گھر چھوڑ کر بشام چلی گئی تھی اور 6 ماہ پہلے بھائی نصیر خان کی ضمانت پر گھر آئی تھیں ، بھائی کو اسی بات کا غصہ تھا کہ شاید اس کی باقی دو بہنیں بھی مسما ع کے ساتھ مل چکی ہیں اس لیے تینوں کو قتل کرنے کی کوشش کی ۔
پولیس کو درج رپورٹ کے مطابق تینوں بہنوں پر گھر میں بھائی کی طرف سے پابندی بھی تھی ،واقعے کے بعد پولیس نے مستعدی کا مظاہرہ کر کے ملزم بھائی کو کچھ ہی گھنٹوں کے اندر گرفتار کرلیا ، اور اس نے دوران حراست اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا اس کے ساتھ ہی وقوعہ میں استعمال شدہ اسلحہ بھی برامد کرلیا گیا ہے ، غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سوات کے سینئیر صحافی نیاز احمد خان نے بتایا کہ پچھلے سال بھی سوات میں 15 واقعات ایسے رپورٹ ہوئے ہیں
جن میں غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا مگر ایسے کیسز میں زیادہ تر مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں ، اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ پولیس ایف ائی آر میں غیرت کے نام پر قتل کے الفاظ شامل نہیں کیے جاتے ، جس کی وجہ سے اس قسم کے کیسز کا فیصلہ اکثر ملزمان کے حق میں ہی اتا ہے ، اور اکثر اوقات ضمانت بھی ہو جاتی ہے ، انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے قانون موجود ہے ، کہ اگر ایف ائی آر میں غیرت کے نام پرقتل کی دفعات شامل کی جائیں تو ملزم کو ضمانت نہیں مل سکتی اور اس کو سزا بھی یقینی طور پر مل جاتی ہے مگر اکثر واقعات میں دیکھا گیا ہے ، کہ ایف آئی آر میں یہ دفعات شامل نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے ملزمان باآسانی رہا ہوجاتے ہیں یا ان کو ضمانت مل جاتی ہے ، دوسرا واقعہ جس میں ہوا کی بیٹی زندگی کی بازی ہار گئی وہ چارسدہ کے علاقے سردریاب وینو گڑھی میں پیش آیا
جہاں پر ایک باپ نے اپنی شادی شدہ بیٹی کو فائرنگ کر کے قتل کردیا ، اس قتل کی ایف ائی آر چارسدہ کے سٹی تھانے میں درج کی گئی ، ایف ائی آر کے مطابق مسما س جو کہ بختیار گل کی بیٹی تھیں اپنے شوہر لقمان جوک گل بیلہ پشاور کا رہائشی ہے کے ساتھ گھر آئی تھی ، مسما س کے والد بختیار گل نے دکان کے دکان کے قریب شوہر کے سامنے اپنی بیٹی مسما س پر فائرنگ کی جس سے موقع پر ہی دم توڑگئیں ، واقعے کی ایف آئی ار میں وجہ قتل بیٹی کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کی وجہ سے باپ کو غصہ آجانا بتایا گیا ہے ، جو کا ملزم ابھی تک پولیس کی حراست میں نہیں آسکا ہے ، مقامی ذرائع نے بتایا کہ مسما س کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھیں
جس کا مقتولہ کے والد کو شدید غصہ تھا اور اسی کی وجہ سے قتل کا اندوہناک واقعہ سامنے آیا ہے ، تفصیلا ت معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کسی شخص جس سے مقتولہ کی سوشل میڈیا پر دوستی تھی اس نے مقتولہ کی ذاتی تصاویر اور ویڈیوز وائرل کی تھی اور مقتولہ اپنے شوہر کے ساتھ اس کے خلاف کارروائی کرنے کا سوچ رہے تھے اس حوالے سے ایف ائی اے دفتر جانے کی تیاری بھی کی ہوئی تھی کہ اس دوران یہ واقعہ پیش آیا اور 18 سالہ دختر بختیار گل مسما س غیرت کے نام پر دنیا سے رخصت کر دی گئی
اس کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چارسدہ سے مشرق ٹی وی کے نمائیندہ فیض محمد نے بتایا کہ مقتولہ کو بلیک میل کیا جا رہا تھا اور وہ اس حوالے سے قانونی کارروائی کرنے کیلیے ایف ائی اے سے بھی رجوع کرنا چاہ رہی تھیں ، اور اسی سلسلے میں گھر گئی تھی مگر وہاں کسی نے اس کے باپ ملزم بختیار گل کو طعنہ دیا کہ تمہاری بیٹی کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے طیش میں آکر بختیار گل نے اپنی ہی بیٹی کا قتل کردیا ، اس واقعے میں ابھی تک ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ جس جواں سال خاتون کا قتل کیا گیا کیا وہ اتنی گہنگار تھی کہ اس کو قتل کردیا جاتا ؟ یا اس کی مدد کی جاتی کہ جو اس کو بلیک میل کررہا تھا اور اس کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل کی تھیں اس کے خلاف کارروائی ہوتی ، اور اس کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے دھکیل کر عبرت ناک سزا دی جاتی ،

مزید پڑھیں:  قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس آج طلب، دعوت نامے ارسال