کیا پاکستان پٹڑی پر آ سکتا ہے؟

چوکس رہیں اور اس انتشار سے ہوشیار رہیں جس کا آج ہمیں سامنا ہے کیونکہ انتشار ریاست کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ وسائل سے مالا مال اور ثقافتی طور پر مستحکم معاشرے میں انتشار اندر سے نہیں بلکہ باہر سے پیدا کیا جاتا ہے اور یہ بنیادی طور پر بیرونی عناصر کے مفادات کو ہی پروان چڑھاتا ہے۔ انارکی یا انتشارکی علامات عدم مساوات، جبر اور موقع پرستی ہیں جب کہ اس کے نتائج بھوک، افلاس اور بیماریاں شامل ہیں۔ اگر ریاست کی بنیاد انصاف ہے تو پھر دشمن کا ہدف معاشی اور معاشرتی خرابیوں کے ذمہ داروں کو تحفظ فراہم کرنا اور مظلوم عوام کو عبرت کا نشان بنانا ہے۔معاشرے کے طاقتور افراد اور گروہ اپنے مفادات کی خاطر تنازعات کو ہوا دیتے ہیں، امن و امان کا مسئلہ پیدا کرتے ہیں اور پھر ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یوں کہیں کہ آپ جتنا بھی علاج کرتے جائیں، مرض بڑھتا ہی جاتا ہے۔
دراصل انگریزوں نے ہمارے لیے ایک ایسا انتظامی، معاشی اور قانونی ڈھانچہ ورثے میں چھوڑا ہے جو ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے ہی قائم کیا تھا۔ بدقسمتی سے ان کا بنایا ہوا یہ نظام ابھی تک قائم و دائم ہے اور سیاسی جماعتوں نے بھی نظام کو
بدلنے کی سعی کرنے کی بجائے وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنی ہیت کو وسعت دی، سمجھوتہ کیا اور خود کو تبدیل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی سات دہائیاں یعنی70 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی جزا و سزا، وسائل کی تقسیم اور ٹیکسوں کا وہیں نظام رائج ہے۔ وقتی فوائد کے لئے پائیدار تبدیلی کے عمل کو پس پشت ڈال دیا گیا لیکن جب معروضی حالات نے تبدیلی کو ناگزیر بنا دیا تو اب معاشرے میں انتشار کا ناسور پیدا کر دیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک زرعی ملک میں آٹا ناپید ہو چکا ہے۔ دالوں اور خوردنی تیل کے لیے موزوں علاقوں میں نقدآور فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں۔ تازہ مچھلی، دودھ، دہی اور پنیر اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔کم و بیش دس لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں کیونکہ انہیں وقت پر مناسب خوراک میسر نہیں آ رہی ہے۔ مجموعی طور پر ملک کی 37 فیصد آبادی اس وقت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ہمارے آبی وسائل شہری اور صنعتی فضلے کی وجہ سے آلودہ ہو چکے ہیں۔ صحت کے شعبے میں قابل علاج امراض کا بوجھ بھی ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ جب کہ لوگوں کو اپنی آمدن میں رہتے ہوئے ضروری اخراجات کو پورا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
پھر حالات کی ستم ظریفی دیکھیں، کہنے کو تو ملک جمہوری نظام کے تحت چل رہا ہے، لیکن عملی طور پر اس جمہوریت کے تمام تر فوائد اشرافیہ تک ہی محدود ہیں۔آئین پاکستان میں واضح طور پر اختیارات اور وسائل کی مقامی یا نچلی سطح پر منتقلی پر زور دیا گیا ہے، لیکن ہماری سیاسی جماعتیں ہی اس عمل کی سب سے بڑی مخالف ہیں۔ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حق میں تو ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات کے حق میں بالکل بھی نہیں ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقامی یا بنیادی انتظامی ڈھانچہ ناگہانی آفات سے نمٹنے اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ملک میں موجودہ انتخابی نظام کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو اقتدار میں آنے کے لیے اٹھارہ فیصد ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس ناہموار اور غیر مساوی معاشرے میں، جہاں دولت کی تقسیم انتہائی غیر مساوی ہے، لوگ بھوک اور بیماریوں میں دھنسے ہوئے ہیں اور نتیجتاً انسانی وقار ختم ہو رہا ہے، وہاں عوام کے ووٹ کی قدرو قیمت کیا ہے؟ یہ واضح ہے۔
اگرچہ انارکی کے کئی بنیادی اسباب تو زمانہ قدیم سے موجود ہیں لیکن اس میں اضافے کا موقع اس وقت پیدا ہوا جب گزشتہ حکومت نے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اشیائے خوردونوش کے ذخیرے بھی بیچ ڈالے۔ پھر بے وقت اور غیر معمولی بارشوں اور پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے خوراک کے بحران پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ مہنگی توانائی کی وجہ سے کاروبار بھی سست روی کا شکار ہیں اور صنعتی یونٹ بتدریج بند ہو رہے ہیں۔ درآمدات کے لیے ڈالر درکار ہیں، لیکن وہ کہاں سے آئیں؟ قومی خزانہ خالی پڑا ہے، حکومت کے پاس اتنی سکت نہیں کہ وہ موجودہ
اخراجات کو کم کر سکے یا ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب بڑھا کر محصولات میں اضافہ کر سکے۔ سنگین معاشی بحران کا شکار ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معاشی بحران سے سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہی نمٹا جا سکتا ہے، لیکن صورتحال یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں دھڑے بازی اور ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف ہیں اور یہ محض اتفاق نہیں بلکہ یہ دولت مند طبقے کی طرف سے اپنی مراعات کے تحفظ کے لیے دانستہ طور پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے اشرافیہ کی اس گرفت کو ذہن میں رکھیں جس کے تحت اشرافیہ مارکیٹ اور سیاست دونوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ ملک میں اب تک کنٹرولڈ انارکی انتشار سے اشرافیہ فائدہ اٹھا رہی ہے لیکن اب یہ کھیل خطرناک ہو گیا ہے کیونکہ انارکی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار ہے اور وہ اسے اپنے مفادات کے لیے بے دردی سے استعمال کر رہی ہیں۔ اس کھیل میں کشمیر بھارت نے ہڑپ کر لیا، معیشت بین الاقوامی اداروں کی گرفت میں چلی گئی اور جمہوریت بطور سیاسی نظام اپنی ساکھ کھو بیٹھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ٹریک پر واپس آسکتا ہے؟ اس کا جواب ہے” ہاں” لیکن اس کے لیے ہمیں ملکی وقار کا خیال رکھنا ہوگا اور جمہوریت کی ساکھ کو بحال کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں جانے سے پہلے مقامی حکومتوں، ٹیکس اصلاحات، مالیاتی خسارے اور علاقائی تجارت پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ اصلاحات کے مکمل ہونے تک اقتدار میں رہنے کے لیے قومی حکومت بھی بنائی جا سکتی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ اگر اشرافیہ اقتدار کے مزے لینا چاہتی ہے تو یہ سماج کو انتشار میں ڈالنے سے بلکہ اسے متحد کرنے سے ہی ممکن ہے۔
(بشکریہ، بلوچستان ٹائمز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!