جذبات اور سوالات کا آتش فشاں

پشاور کی سرزمین ایک بار پھر خونِ خاک نشیناں سے لالہ زارہوکر رہ گئی ۔ پولیس لائن کی مسجد میں تباہ کن خودکش حملے میں سیکڑوں افراد شہید اور زخمی ہو گئے ۔اس شہر کے چہرے پرپر ماضی کی سپرپاورز کی دوجنگوں کا کی تباہ کاریوں اور لڑائیوںکی دھول ابھی تک موجود تھی کہ اس تیسری جنگ کی گرد کا قرعۂ فال بھی اسی شہر کے نام برآمد ہواہے ۔ پھولوں کا شہر اور نگر ایک بار پھر خون میں لت پت ہوگیا اور خوف اور خدشات کے بادل جو بظاہر چھٹتے نظر آرہے تھے ایک بار پھر پوری قوت سے سروں پر منڈلانے لگے ہیں ۔اس دھماکے کے بعد سوالات اور شکوک وشبہات کا ایک جنگل چہار سو اُگنے لگا ۔غم وغصہ کی تو انتہا ہے ۔نئی نسل کے اب ماں باپ اور نانی دادی کے قصے کہانیوں کے محتاج نہیں رہی اس کے ہاتھ میں موبائل کی صورت میں زمانے بھر کی انفارمیشن اور علم آگیا ہے ۔اس کو اچھے او ربرے کی پہچان اور پرکھ آگئی ہے ۔نانیوں کی کہانیاں سن کر جوان ہونے والوں نے نسل نوپر بس اتنا احسان کیا کہ انہیں موبائل اور انٹرنیٹ تک رسائی دی علم اور ابلاغ کا سرچشمہ اب دونوں نسلوں کا ایک ہے ۔اس لئے ہم اس نسل کو اپنے بیانیے کا غلام نہیں رکھ سکتے بلکہ اکثر اوقات اس سوچ کے آگے سپر ڈالے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔اس تبدیلی کو سمجھنا ہوگا۔حریت فکر کا جن بوتل سے نکل چکا ہے۔ اس بار لوگ تیسری جنگ کا بوجھ اُٹھانے پر تیار نہیں ۔اگر کوئی ان لوگوں کی بنیاد پر بوجھ اُٹھانے کے عہدوپیماں کر آیا ہے تو اسے فوراََ سجدہ ٔ سہو کرنا چاہئے ۔اس دھماکے پر حسب روایت وہ سب کچھ ہورہا ہے جو تین دہائیوں سے ہوتا چلا آیا ہے گویا کہ فیصلہ سازوں کے مائنڈ سیٹ سمیت کچھ بھی نہیں بدلا اگر کچھ بدلا ہے تو عوامی شعور اور نئی نسل کی سوچ کا زاویہ ہے ۔دھماکے کی مذمت ،شہدا کے لئے ایصال ِ ثواب پر زخمیوں کے لئے
گلدستے اور صحت کاملہ کی دعائیں ۔مرحومین کے لواحقین اور زخمیوں کی مالی دلجوئی کے اعلانات ،دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کے عزم کا اظہار اور ان کی کمر توڑنے کے جذبات کا بیا ن دھماکے کی وجوہات جاننے کے لئے کمیٹی کا قیام اور مساجد درگاہوں امام بارگاہوں اور تعلیمی اداروں حساس تنصیبات کی سیکورٹی سخت کرنے کے احکامات یہ سب وہ کہانی ہے جو یہاں کئی دہائیوں سے لکھی جا رہی ہے بلکہ کہانی کا سکرپٹ ایک ہے صرف فوٹو سٹیٹ مشین سے اس کی کاپیاں ہر ”نازک موڑ ”پر نکلتی ہیں۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا سفر ہی نازک موڑ سے شروع ہو کر نازک موڑ پر ختم ہوا ہے ۔نازک موڑ نہ ہوا دائرے کا سفر ہوا جس کی کوئی حد اور اختتام نہیں۔اس سب کے باوجود غیر شعوری طورپرہر حادثے کے بعد ایک اور حادثے کا انتظار ہونے لگتا ہے ۔دہشت گردی جب بڑھتی ہے تو پھر وہ اپنے ساتھ پورا کلچر لے کر آتی ہے ۔جنگ ،خوف اور افسردگی کے سائے چہار سو لہرانے لگتے ہیں ۔ناکے، تلاشیاں ،پٹرولنگ سائرن ایک جنگ زدہ ملک کی تصویر بناتے ہیں ۔ہر فرد دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ہر پوٹلی میں باردوی مواد دکھتا اور حالات کا مارا اور قسمت کا ستایا ہواہر کنفیوزڈ انسان ،راہ گیر ،مسافر مشکوک لگتا ہے ۔یہ جنگ کا
کاروبار ہوتا ہے ۔کفن تابوت سیکورٹی انتظامات سی سی ٹی وی دہشت گردوں سے باخبر رہنے کے اشتہارات ،دہشت گردی پر سیمینار تربیتی ورکشاپس جنگ کے حفاظتی تدابیر کاروبار کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں۔یہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ ایک کاروبار امن کے نام پر بھی شروع ہوتا ہے ۔امن کی فیوض وبرکات کے لئے امن سمینارز واکس جلسے جلوس سمیت بے شمار اقدامات جنگی کاروبار کے پہلو بہ پہلو چلتا ہے ۔ایسے جنگ زدہ ملک میں نہ سیاحت فروغ پاتی ہے نہ سرمایہ کاری کو فروغ ملتا ہے ۔جنگ زدہ علاقوں میں کوئی سیر وسیاحت کے لئے آتا ہے نہ سرمایہ کاری کی حماقت کرتا ہے۔نتیجتاََ ایسے حالات کا شکار ملک کی معیشت مزید زوال کا شکار ہوجاتی ہے ۔جنگ اور امن کے نام پر جو کاروبار چلتا ہے وہ مصنوعی اور طبقاتی ہوتا ہے ۔اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں ملتا ۔یوں لگ رہا ہے کہ پاکستان میں جنگ کا وہ موسم واپس لوٹ آنے کو ہے جسے چند ہی برس پہلے دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے حتمی اعلان کے ساتھ اور اس پر مستزاد ڈیورنڈلائن پر باڑھ لگا کر رخصت کر دیا گیا تھا ۔بولنے والے تو بول ہی رہے ہیں مگرپشاور کے جرم بے گناہی میں مارے جانے والے اور اپنے ہی خوں میں نہائے ہوئے خاموش لوگوںکی خاموشی بھی سوال پوچھ رہی ہے کہ ”میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں” ایسے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ان دنوں روس سے سستے تیل کی خریداری کی مہم ماسکو میں ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے روس سے سستے تیل کی خریداری پر روسی وزیر خارجہ نے امریکہ دبائو کا ذکر بے سبب نہیں کیا کیونکہ پاکستان ابھی تک
اسی تیل کی قیمت چکا رہا ہے اور کئی ماہ سے ایک سیاسی بحران کا شکار ہے ۔اس بحران سے نکلنے کی کوئی راہ بھی سجھائی نہیں دے رہی ۔روس سے سستے تیل کی خریداری اور خارجہ پالیسی میں آزاد روش پاکستان کے پاس موجودہ حالات کا دبائو کم کرنے کا واحد آپشن تھا ۔قرض اور اُدھار لے لر پاکستان کی کمر دوہری ہوگئی ہے اور اس کے مخیر حضرات کی ہمت اور تجوریاں جواب دے گئی ہیں ۔چین اور سعودی عرب جیسے سدا بہار اہل خیر بھی پاکستان کو اپنے معاملات ٹھیک کرنے کا مشورہ دے کرخالی کشکول واپس لوٹا رہے ہیں۔آئی ایم ایف کسی رو رعائت کے موڈ نہیں ۔امریکہ مہرباں ہونے کو تیار نہیں ۔ایسے میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے متبادل آپشن روس سے سستا تیل اور گندم تھا ۔افغانستان سمیت خطے کے کئی ملکوں نے روس کی اس پیشکش سے فائدہ اُٹھا کر اپنے عوام کو ریلیف فراہم کیا مگر پاکستان میں عوام کی کون سوچتا ہے ۔عوام بھی ایسے صابر وشاکر ہیں کہ مہنگائی کا ہر نیا دور انہیں مقدر کا لکھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔ امریکہ آئی ایم ایف دوست ملکوں سے جب توقعات پوری نہ ہوئیں تو مصدق ملک چار وناچار ماسکو جا پہنچے اور معاہدہ کرنے کی شروعات کیں ۔مصدق ملک روس سے تیل کی خریداری کا مژدہ سنا رہے تھے تووزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری مغربی میڈیا میں کہہ رہے تھے کہ روس سے تیل خریدنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔یوں پی ڈی ایم حکومت کے دووزرا دو الگ سمتوں میں سفر کر رہے تھے ۔اب مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق پی ڈی ایم حکومت نے روس سے تیل خریدنے کا فیصلہ کیا تو روسی وزیر خارجہ نے یہ یاد دلانا ضروری سمجھا کہ امریکہ اس معاہدے میں رکاوٹ ڈالے گا اس لئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو۔امریکہ کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کے نتیجے میں ایک حکومت برطرف کی جا چکی ہے۔یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی حکومت امریکہ سے دبائو نہ ڈالنے کا کوئی معاہدہ کرتی یا پھر امریکہ کے ممکنہ دبائو کا مقابلہ کرنے کا راستہ اختیار کرتی ہے ؟آکر کوئی وجہ تو ہے کہ کل کا ناخوب چند ماہ بعد ہی ناخوب ہوگیا۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی