پاک افغان تعاون کا معاملہ

افغانستان کے وزیر خارجہ ے پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان بہترروابط اورمل کر صورتحال سے نکلنے کی سعی کرنے کا جوبیان دیا ہے قطع نظر دیگر معاملات کے اس ضمن میں افغانستان اگر واقعی پاکستان سے انسداد دہشت گردی میں حقیقی معنوں میں عملی تعاون کا مظاہرہ کرے تواس مشکل پرقابوپانے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے افغانستان صرف اگر اپنی سرزمین کودوحہ معاہدے کے مطابق اورعالمی قوانین کے احترام میں دوسروں خصوصاً پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے میں پوراپورا تعاون کرے توپاکستان کے لئے باقی ماندہ اور بچے کھچے عناصر کا خاتمہ ٹارگٹڈ آپریشنز کے ذریعے باآسانی ممکن ہوگا۔ ٹی ٹی پی کے ارکان کی تعداد کے بارے میںجو اعداد وشماربتائے جارہے ہیں اور جتنے افراد کو وطن واپس آن کا موقع دیا گیا ان سارے اعداد و شمار کاجائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ٹی ٹی پی کے اراکین کی تعدادمیںاضافہ ہوا ہے حالانکہ مختلف آپریشنز کے دوران ان کی ہلاکتوں اورگرفتاریوںکے بعدان کی تعداد شاید اتنی نہیں ہونی چاہئے تھی۔جہاں تک پاکستانی مساعی کاتعلق ہے پاکستان مسلسل اس امرکے لئے کوشاں ہے کہ اس ضمن میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہو اس ضمن میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات دہشت گردی کوقابو کرنے کے حوالے سے اہم ہیں لیکن اگر خود افغان حکومت ہی کے زیر سایہ سرحد پرباڑ اکھاڑنے اوراپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے میں کوتاہی کا مظاہرہ ہوتا رہے گا توپھرہمسایہ ملکوںکے درمیان تعلقات میں بہتری کیسے آسکتی ہے انسداد دہشت گردی کے لئے دونوں ملک تیار نہ ہوئے تو دہشت گردی کی جنگ اپنے انجام کونہیں پہنچے گی بلکہ جاری رہے گی جس کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف اپنے سرحدی معاملات طے کریں بلکہ باہم مل کر خطے میں امن کے لئے خطرہ بننے والی قوتوں کا قلع قمع کرنے کی ذمہ داری بھی پوری کریں صرف تحریک طالبان پاکستان ہی خطے کے امن کے درپے نہیں بلکہ داعش کی صورت میں ایک بڑا خطرہ افغانستان میں موجود ہے اس کے کارندوں کی پاکستان سے گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں اوربعض واقعات میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اس مشترکہ خطرے سے مقابلہ کرنے اور اس کا صفایا کرنے کے لئے باہم تعاون کا مظاہرہ کریں۔اس میںدونوں ممالک کی بقاء ہے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند