وقت کی ضرورت

وزیراعظم شہباز شریف نے اہم قومی مسائل پر7فروری کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام قومی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مدعو کرلیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نیاہم قومی چیلنجز پر تمام قومی سیاسی قائدین کو ایک میز پر بٹھانے کا بڑا فیصلہ کیا ہے، جو ملکی سیاسی منظر نامے پر بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔ 7فروری کو کل جماعتی کانفرنس اسلام آباد میں ہوگی ۔ آل پارٹیز کانفرنس کے حوالے سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر اور سابق وزیردفاع پرویز خٹک سے رابطہ کیا اور وزیراعظم کی طرف سے عمران خان کو اے پی سی میں شرکت کے لیے دعوت کا پیغام پہنچایا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے پشاور میں ہونے والی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی پی ٹی آئی کے دو نمائندوں کو شرکت کی دعوت دے دی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ ایاز صادق نے وزیراعظم کا پیغام اسد قیصر اور پرویز خٹک کو پہنچا دیا اور پی ٹی آئی کے رہنماں کو اپنی جماعت کے نامزد نمائندوں کے ناموں سے آگاہ کرنے کی درخواست کی ہے۔لیکن ایپکس کے اجلاس میںتحریک انصاف کے کسی نمائندے نے شرکت نہیں کی اور اس کی دم تحریر کوئی ٹھوس وجہ بھی نہیں بتائی گئی بہرحال اس سے ایک مرتبہ پھراس امرکا اظہار ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ حکومت سیاستدانوں اور اس نظام کے حوالے اپنے سخت موقف پر قائم ہے جس کے بعد اے پی سی میں بھی ان کی شرکت بارے کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی تمام سیاسی قائدین کو ایک میز پرلا بٹھا کرمشاورت اور صوبائی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے دو نمائندوں کو شرکت کی دعوت درست سمت میں درست اقدام ہے ۔ یہ سارا عمل دیر آید درست آید کے مصداق ہے گو کہ گزشتہ دس ماہ سے سیاسی درجہ حرارت آسمان کوچھونے لگا ہے لیکن بہرحال اب بھی اگرسیاسی قائدین ایک ساتھ مل بیٹھیں تواحسن ہو گا سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کسی صورت بھی سیاسی قائدین کے ساتھ نہ بیٹھنے اور تنہا پرواز جاری رکھنے کی جوپالیسی اب تک اختیارکئے رکھی اس کے اثرات اور ثمرات اب ان کے سامنے ہیں یہ ایک اچھا موقع ہے کہ سیاستدان مل بیٹھیں اور تحریک انصاف کی بھی اس میں نمائندگی ہو۔ حالات کو معمول پرلانے اور تلخیاں کم کرنے کے حوالے سے حکومت نے پہل کرکے ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کیا ضرورت اور ذمہ داری بھی حکومت اوروزیراعظم ہی کی تھی کہ وہ ملکی حالات کومعمول پرلائیں۔حکومت کی جانب سے بار بارتحریک انصاف کوموقع دیا گیا کہ وہ پارلیمان میں آکر اور سیاسی معاملات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کا راستہ اپنائیں البتہ جب تحریک ا نصاف دوصوبائی حکومتوں کو ختم کرکے قومی اسمبلی میں واپس جانے لگی توسپیکر نے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کرکے نام الیکشن کمیشن کوبھجوا دیئے جس سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا بہرحال سیاسی معاملات سے قطع نظرملکی معاشی صورتحال اوراب امن و امان کی صورتحال اس امرکی متقاضی ہے کہ ملکی معاملات کاحل مل بیٹھ کر نکالا جائے اس وقت سارا زور ضمنی انتخابات کے کرانے اور اس کو التواء میں رکھنے کاجاری ہے سیاستدان خواہ جس بھی موضوع پرمل بیٹھیں سیاسی معاملات پربات چیت فطری امر ہے اس موقع کو تحریک انصاف ضائع نہ کرے تو ضمنی انتخابات کی بجائے عام انتخابات کی تاریخ میں بدلنے کا امکان ناممکن نہیں۔ملک معاشی بحران اور دہشت گردوں کا شکار اس وقت پی ڈی ایم اورتحریک انصاف دونوں کو انتہا پسندانہ اور میں نہ مانوں قسم کے نہیں بلکہ اعتدال پر مبنی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس قدرمشکل حالات کے باوجود سیاستدانوں میں تعامل نہ ہونا بھی اپنی جگہ مشکلات میں ا ضافے کا باعث ہے جس کا ملک اب مزید متحمل نہیں ہوسکتا پالیسی سازی میں سیاسی ایوانوں کا موثر کرداراسی وقت ہی ہوسکتا ہے جب ایوان نامکمل نہ ہو اور عوام کے سارے نمائندے موجود ہوں معیشت وسیاست آج جس نہج پرکھڑی ہیں یہ اہم قومی چیلنج ہے کہ اس موقع پرسیاستدان اور تمام سیاسی قائدین ایک میز پر بیٹھیں اوراپنا کردار ادا کریں وقت کی پکاریہ ہے کہ سیاسی قائدین اپنی انائوں کے حصار سے باہر نکل آئیں اور نیک نیتی کے ساتھ وسیع تر مشاورت کے اس عمل میں شامل ہوں اورایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دے کراس پرعمل پیرا ہوا جائے ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں