آئی ایم ایف ”پھنس گئی جان شکنجے اندر”

ملک میں مہنگائی نصف صدی کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ دوسری جانب حکومت آئی ایم ایف سے نویں جائزے کے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لئے ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھانے پر رضامندی ظاہر کررہی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے مذاکرات کاروں نے بجلی فی یونٹ6روپے مہنگی کرنے، پٹرولیم مصنوعات پر17فیصد سیلز ٹیکس کے فوری نفاذ اور محصولات کے ہدف کو 8300ارب تک لے جانے کے لئے کہا ہے۔ خزانہ کے وزیر مملکت کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط پر حکومت نے بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت امیروں کو سبسڈی نہیں دے گی۔ بجلی کے100یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دی جائے گی۔ ایک طرف مہنگائی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا طوفانی سیلاب ہے دوسری جانب زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہیں۔ آئی ایم ایف سے نویں جائزہ پروگرام پر جاری مذاکرات ظاہر ہے عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط تسلیم کئے جانے پر ہی کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں تو ایک ارب ڈالر قرضہ مل جائے گا۔ یہ قرضہ وقتی ریلیف دے سکے گا؟ بظاہر اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ رواں ماہ کے دوران ہی چینی قرضے کے سود کی مد میں50کروڑ ڈالر کے ساتھ دیگر قرضوں کے سود اور رقم کی اقساط کی مد میں تقریباً3ارب ڈالر مزید درکار ہوں گے۔ فی الوقت یہی محسوس ہورہاہے کہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس طور آئندہ ماہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں3روپے اور مئی میں مزید70پیسے کا اضافہ کرنا ہوگا۔ رواں برس دسمبر تک مجموعی اضافہ چھ روپے یونٹ ہوجائے گا۔ حکومتی ذرائع بتارہے ہیں آئی ایم ایف فی یونٹ بجلی کی قیمت میں 10روپے اضافے کے لئے کہہ رہا ہے۔ معاشی ابتری و بدحالی کے معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟ اس سوال کے جواب میں سابق اور موجودہ حکومت کے ذمہ داران اپنی اپنی رام لیلائیں سناتے دیکھائی دیتے ہیں۔ افسوس کہ داخلہ، خارجہ اور معاشی پالیسیوں پر عوامی مکالمے کا ہمارے یہاں رواج نہیں بن پایا۔ پارلیمان میں بھی اس حوالے سے ہمیشہ ایک خاص قسم کی تابعداری کا ماحول دیکھنے میں آیا۔ ماضی قریب میں پاکستان کو غیرملکی قرضوں سے آزاد کروانے اور خودانحصاری کو فروغ دینے کے دعوے پر اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار میں آنے والوں کے دعوے بھی پانی کا بلبلہ ثابت ہوئے۔ یہ بجا ہے کہ فوری طور پر اس معاشی بحران سے نکلنے کی ضرورت ہے جو سیاسی و سماجی عدم استحکام کو بڑھانے کی وجہ بن رہا ہے مگر اس بات سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ کیا جب تک مختلف شعبوں کے حوالے سے عوامی و ملکی مفاد میں طویل المدتی پالیسیاں وضئع نہیں کی جاتیں بہتری کی شروعات ممکن نہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کو بطور خاص یہ سوچنا ہوگا کہ مستقبل کے حوالے سے پالیسیاں 23کروڑ افراد کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھ کر وضع کرنی ہیں یا بالادست اشرافیہ اور ایک خاص شعبہ کے مفادات کی بنیاد پر؟ معاشی ہی نہیں سیاسی، سماجی اور علاقائی معاملات و مسائل کے حوالے سے پاکستان اس وقت جہاں کھڑا ہے یہ قابل فخر مقام ہے نہ ہی قابل ذکر۔ اس گھمبیر اور
افسوسناک صورتحال کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی بجائے ارباب سیاست کو سوچنا ہوگا کہ کیا انہوں نے اپنے اپنے وقت میں ملے حق حکمرانی کے عرصے میں خودانحصاری کے لئے اقدامات کئے یا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور کے مصداق قرض کی مے پینے اور فاقہ مستی کے رنگ لانے کی امید پر مزید قرضوں کا بوجھ بڑھایا؟امر واقعہ یہ ہے کہ جب مختلف شعبوں کی پالیسیاں بناتے وقت عوامی ضروریات کو نظرانداز کرکے بالادست قوتوں کے حقوق و مراعات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور زراعت و صنعت کے مقامی پیداواری عمل کو نظراندازکرکے قرضوں اور امدادوں کے سہارے ڈنگ ٹپائو رویہ اپنایا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے جس کا سامنا آج پاکستان کو ہے۔ پاکستانی معیشت کی ابتری میں سب سے زیادہ عمل دخل ہماری افغان پالیسی کا ہے اس پالیسی کی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں میں لگ بھگ 4سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس عرصہ میں افغان پالیسی کی بدولت کیا ملا اور یہ رقم کہاں خرچ ہوئی اس کا کوئی ریکارڈ ہے نہ ہی کسی
فورم پر کوئی جواب دینے پر آمادہ؟4سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانے والا ملک گزشتہ بتیس پینتیس سالوں سے دہشت گردی کا سامنا بھی کررہا ہے۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے معاشی نقصان، افغان مہاجرین کا بوجھ اور دہشت گردی سے لہولہان ملک کی پالیسیوں کو عالمی برادری اور بالخصوص افغان پالیسی کے اتحادیوں میں پذیرائی کیوں نہ مل پائی آخر یہ کیا وجہ ہے کہ مصائب کا سامنا کرنے والے ملک کی تعمیر نو کے لئے عالمی برادری اور خصوصا افغان پالیسی کے اتحادیوں نے عملی مدد نہیں کی۔ ماضی میں اگر تعمیر نو کے لئے کوئی رقم ملی تو اس کا حساب کیا ہوا؟ ہماری دانست میں محض یہی مسئلہ سنگین صورت اختیار نہیں کرگیا کہ ہم عالمی برادری کے اعتماد سے محروم ہوئے اس لئے معاشی مسائل بڑھے۔ اس امر سے بھی صرف نظر ممکن نہیں کہ اس سارے عرصے میں غیرترقیاتی اخراجات میں کمی کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ الٹا اس الزام کا ایک سے زائد بار سامنا کرنا پڑا کہ تعمیر نو کے لئے فراہم کردہ رقم اور افغان پالیسی میں لاجسٹک سپورٹ کی مد میں ملی رقم اصل مدوں پر پر صرف ہوئی نہ ہی اس کاکوئی حساب موجود ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آئی ایم ایف نے پچھلے برس کے پہلے ماہ میں ا س وقت کی حکومت پر پانچویں چھٹے جائزے کے بعد فراہم کردہ رقم کے بڑے حصے کے معاہدہ کے برعکس استعمال پر جو اعتراضات اٹھائے تھے ان کی حقیقت کیا تھی نیز یہ کہ سال 2020 میں کورونا وبا کے عرصہ میں ملنے والی عالمی امداد کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی شرط پر عمل سے پہلو تہی کیوں کی گئی؟ اس امر پر دو آرا نہیں کہ ملک اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور الزاماتی سیاست سے متاثر ہوا سماجی ڈھانچے کے مسائل بھی سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ستم بالائے ستم دہشت گردی کی حالیہ لہر ہے۔ ان مسائل کو کیسے حل کیاجاسکے گا اور یہ کہ اگر آئی ایم ایف کی شرائط پر نویں جائزے کے مذاکرات کو کامیاب بناکر ایک ارب ڈالر لینا ہے تو کیا ہم اس مشکل سے نکل پائیں گے جو ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بد سے بدتر صورت اختیار کرتی جارہی ہے؟ اندریں حالات ہم مودبانہ درخواست کرسکتے ہیں کہ عوام الناس پر اتنا ہی بوجھ ڈالا جائے جسے اٹھانے کی ان میں سکت ہو برداشت سے زائد بوجھ ڈالنے کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ثانیا یہ کہ عام آدمی متاثر نہیں ہوگا، کا لالی پاپ دینے سے گریز ہی نہ کیا جائے بلکہ عام آدمی کو بچانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام