آنسو ایک نہیں کلیجہ ٹوک ٹوک

یہ کوئی ایّام مر ور کی بات نہیں جب وفاق میں ریا ست مدینہ کو ایک سال اور صوبہ کے پی کے میں تقریباًچھ سال ہو گئے تھے کہ رمضان کا مہینہ تھا ، مفتی کفایت اللہ قید تھے ان کی ننھی پری اپنے بابا کے لیے افطاری کا سامان لے کرپہنچی تو جیل حکام نے اس ننھی پری کو افطاری سمیت جیل سے واپس بھیج دیا ، اپنے بابا کے لیے تیا ر کر کے لا نے والی افطاری بھی باپ تک پہنچانے سے انکا ر کر دیا بچی کی آنکھو ں میں یاسی کی ذرا سی بھی جھلک نہیں پائی گئی اور وہ ایک پر عزم قدمو ں سے واپس لو ٹ گئی ، اس موقع پر نہ باپ رویا ، نہ بیٹی روئی ، یہ قصہ ایک وقت کا نہیں بلکہ جب بھی مفتی کفایت اللہ کی بیٹی کھانا لے کر آتی اس کوباپ سے نہیں ملنے دیاجاتا تھا ۔ لڑکیوں کے بارے میں ہے کہ چاہے وہ ننھی کلی ہوں یا ا ن کے بالو ں میں سفید ی چمک جائے وہ اپنے والدین بالخصوص باپ سے بے بہا محبت کرتی ہیں حتیٰ کے ان کے بارے میں یہ کہا وت ہے کہ بیٹیاں باپ پر نچھاور ہو تی ہیں اور بیٹے ما ں کی آنکھ کا تارا ہو تے ہیں ، عمر ان خان نیا زی کے بھاری بھر کم ٹائیگر فو اد چودھری ایک نجی ٹی وی کے ٹاک شو میں رو پڑے کہ دو دن کی قید میں وہ اپنی بچیو ں سے دور رہے مل نہ پائے ، واقعی یہ دکھ بھرا واقعہ ہے کہ باپ دو دن تک بیٹیو ں سے نہ مل پائے مگر جب فو اد چودھری ریا ست مدینہ کے ترجما ن تھے تب مریم نو از کو ا ن کے باپ کی نظروں کے سامنے گرفتار کیا گیا تھا ،جس وقت مریم نو از کو گرفتار کیا گیا تھا اس وقت مریم نواز کے ساتھ ان کی چھو ٹی بیٹی بھی موجو د تھی ، اسی ننھی منی سی گڑیا کے سامنے گرفتار کرکے لے گئے تھے ، اس وقت چودھری فواد کے آنکھو ں سے آنسو نہیں ٹپکے تھے کیو ں کہ وہ نیا زی ٹائیگر تھے ، ٹائیگر کبھی دل گرفتہ نہیں ہو تا کیوں کہ اس کی خصلت میں ۔۔۔۔ چلو نہیں لکھتے سمجھنے والے سمجھتے ہیں ہاں البتہ تب یہ بھی معلو م نہیں تھا کہ کس جر م کی پاداش میں مریم کی گرفتاری ہوئی ہے ۔ لیکن اس وقت بھی باپ بیٹی دونو ں کے چہروں پر آنکھ سے آنسو نہیں ْٹپکے تھے دل مسوس لیا گیا تھایہ درست ہے کہ جب خود پر گزرتی ہے تو احسا س زیا ں ہو تا ہے ، ایک مریم ہی پر کیا موقوف ، فواد حسن فوا د کے صاحبزادے انجینئرنگ میں ما سٹر ڈگری کر کے بیرون ملک ایک ملٹی نیشنل کمپنی میںملا زمت کر رہے تھے جب نو از شریف دشمنی میںان پر بھی آزمائش ڈھادی تو صاحبز ادے سب کو ویسا ہی ویسا ہی چھوڑ چھا ڑ پاکستان واپس ہوئے اور تین سال تک عدالتوں اور جیل خانو ں کے چکرکاٹتے گزار دئیے ، اس نو جو ان کا مستقبل تباہ ہونے پر فواد چودھری کی آنکھیں نم تک نہیں ہوئیں یہ بھی ظاہر ہوا کہ فواد حسن اور فواد چودھری میں کتنا فرق ہے ، یہی کہ فوادحسن ٹائیگر نہیں اور فواد چودھری ٹائیگر ہے ۔فواد چودھری کو موجو دہ گرفتاریو ں کا موازنہ ریاست مدینہ کے دعوے داروںکے دور سے بھی لگا لیا کریں تو بہتر ہے ، آج شیخ رشید گرفتاری کے بعد سے جس طر ح آپے سے باہر ہورہے ہیںکیا ریا ست مدینہ کے دور میں کوئی گرفتار ایسی حرکتوں کا مرتکب ہو ا تھا ، تاہم یہ حقیقت ہے کہ سیاسی گرفتاریا ں کبھی بھی ملکی مفاد میں بہتر ثابت نہیں ہو اکرتیں ، مدینہ ریاست مدینہ میں فواد چودھری اور شیخ رشید کی
انگشت نمائی سے جو گرفتاریاں ہوئیں وہ بھی قابل افسو س ہیں اور اس زمانے میں بھی سیا سی گرفتاریاں کوئی مثبت جو از نہیں رکھتیں ، چنانچہ اگر فواد چودھری کی گرفتاری سیا سی بنیاد رکھتی ہے تو افسو س ناک ہے اور ان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں ، شایداب نصیحت ہوئی کہ دوسروںکے دکھ اٹھانے پرخوشیاں نہیں ما نناچاہیں کیونکہ اپنے دکھ پر روناہی آتا ہے ، حمزہ شہبازکا بھی یاد ہے کہ ان کے یہاں اٹھا رہ سال بعد بچی کی پیدائش ہوئی تھی ، بچی کی پیدائش کے وقت حمزہ شہباز کو فواد چودھری کی ریا ست نے جیل میںپھینکا ہواتھا بچی کو دیکھنے کی اجازت نہیںدی گئی تھی حمزہ شہباز نے نو مو لو د کو ایک سال بعد دیکھاجب و ہ جیل سے رہا ہوئے ۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ریا ست مدینہ کے دور میں کتنی کتنی مدت قید و بند میں رہے ،شاہدخاقان عباسی 222 دن شہباز شریف 207دن سعد رفیق چارسو باسٹھ دن ، ثنا ء اللہ خان ایک سوچوہتر دن ، میاں نوازشریف تین سو چوہتر دن حمزہ شہباز چھ سو ستائیس دن ، مریم نوازایک سو ستاون دن ، احسن اقبال چھیا سٹھ دن ، خواجہ آصف ایک سو چھہتردن قید وبند میں پڑ رہے ، ان میں سب سے زیادہ قید وبند کی گھڑیا ں حمزہ شہباز نے گزاری ہیں لیکن کسی کے بارے میںنہیںسناکہ ان کے آنکھو ں میں آنسو امنڈ آئے یا ان کے اہل خانہ یا وہ خود گریہ زار ہوئے ۔سیاست میںنہیں بلکہ ملک کے مفاد میںہر شخص کو گرم سرد دن سہنا پڑتے ہیں ، یہا ںیہ بات بھی مقصود ہے کہ غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات نہ تو آمر کو فائدپہنچا سکتے ہیںنہ کسی کو نقصان البتہ
ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں آج پاکستان جس نہج سے گزررہاہے اس کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے کہ آئین اور قانو ن کو بالائے طاق رکھد یا گیا ۔ اسی صورت حال کا ایک ہی حل ہے کہ سیا ست دان اور دوسری مداخلت کا ر قوتیں یہ سوچیں کہ ملک کا مفاد ذاتی انا سے بالا ہے ملکی مفاد کو ذاتی انا کی بھینٹ نہیں چڑھا نا چاہیے ، وزیر اعظم شہبا زشریف کی صدارت میں منعقدہ اپیکس کمیٹی کا اجلا س قومی مفاد کے لیے تھا جس میں مدعین سب شریک ہوئے لیکن پی ٹی آئی کی قیا دت غیر حاضر رہی ، جب کہ اتنے اہم قومی مسئلے سے متعلق اجلا س سے پی ٹی آئی کی نمائندگی کا نہ ہونا فکر مندی کی بات ہے کیو ںکہ کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی نے شرکت کرنے سے انکار اس لیے کیا کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں کی گرفتاریاں ہورہی ہیںاور مقدمے بنائے جا رہے ہیں ۔ شاید جو از منا سب نہیں ہے پی ٹی آئی اس وقت بھی حزب اختلا ف کے ساتھ کسی بھی مسلئہ میں بیٹھنے کا تیا ر نہیںتھی جب وہ خود اقتدار میں تھی اور جب وہ اب خود حزب اقتدار میںہے تو پولیس لائن کے اندوہناک سانحہ کے باوجود قومی مفاد کے اجلا س میں شریک ہو نے سے محض سیاسی اختلا ف یا یو ں کہہ لیجئے ما ضی کی اناکی بنیا د پر انکا ری ہوئی ہے ۔ جو اچھے طور پر نہیں دیکھاجا رہا ہے ۔پاکستان کی تما م سیاسی جماعتوںکو ملک کے استحکام کے لیے قومی افہام وتفہیم کو ترجیح دیناہو گی ، سیاسی ہو س گیر ی سے بچنا ہوگا ۔ اس ملک کا استحکام شرط اولین ہے اگر ملک میںاستحکا م ہو اتو سیا ست بھی چمکے گی ، اگر افراتفری ہوئی تو کہاںکی سیا ست کہا ں ، قبولیت ، کہا ںکی انا اور کہاں اقتدار کی چمک دمک ، یہ سب پانی پانی ہو جائے گا ۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس