5فروری یوم یک جہتی کشمیر

5فروری کو ہر سال یوم یک جہتی ٔ کشمیر جوش و خروش سے منایا جاتا ہے ۔عام تعطیل ،جلسے جلوس ،تقریروں اور مضامین کے ذریعے لوگ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے ماضی اور مستقبل کا جائزہ لیتے ہیں۔یہ دن کشمیر میں 1988میں شروع ہونے والی ایک نئے انداز کی مزاحمت کے ساتھ یک جہتی کے طور پر منایا گیا جو بعد ازاں ایک رسم کی صورت اختیار کر گیا ۔جب 1990میں کشمیر کے جلاد صفت گورنر جگ موہن کے اقدامات کے خلاف کشمیری نوجوان بڑی تعداد میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مدد کے لئے پاکستان اور آزادکشمیر کی طرف دیکھنا شروع کیا تو پاکستان میں قاضی حسین احمد نے کشمیر کی تحریک سے اظہار یکجہتی کے لئے عام ہڑتال کی اپیل کی ۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نوازشریف نے اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا جس کے چند دن بعد وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ہڑتال کی حمایت کی اس طرح یوم یک جہتی کشمیر منانے کا ایک سلسلہ چل پڑا جو اٹھائیس برس بعد بھی جاری ہے ۔اب یہ دن کشمیر اور پاکستان کے باہمی تعلق کی علامت بن کر رہ گیا ہے ۔پاکستان کے لوگوں کو اس دن یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کے دفاع اور سا لمیت سے جڑا ہوا ایک مسئلہ ہے ۔کشمیر ی مسلمان بھارت کی طاقت اور دبدبے کو پائوں کی ٹھوکر پر رکھ کر برسرمیدان کھڑے ہیں ۔وہ ستائیس سال بھارت کا ہر ظلم وجبر برداشت کر رہے ہیں مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ایک نسل کے بالوں میں میدان کارزار اور میدان عمل میں ہی چاندی اترتی ہے تو ایک اور تازہ دم نسل میدان میں نکل آتی ہے ۔جس کے لبوں پر آزادی کے گیت ہوتے ہیں اور جس کی انگلی بندوق کی لبلبی پر ہوتی ہے ۔اس وقت بھی بھارت
کی ساڑھے آٹھ لاکھ فوج مرکزی قوانین کا سہار ا اور اسرائیل جیسے اتحادیوں کی مدد کشمیری نوجوانوں کی مزاحمت کو کچلنے میں مصروف ہے مگر آفرین ہے اس بہاد رقوم پر جو سنگینوں کے سائے تلے بھی آزادی کا نعرہ بلند کر رہی ہے ۔کشمیریوں نے پاکستان کی حکومتوں کی پالیسیوں سے بے نیاز ہو کر بہت سے لوگ اس حقیقت سے ہی بے خبر ہوتے ہیں کہ آخر یہ دن منانے کا آغاز کب اور کیوں ہوا۔اس لئے اکثر لوگ یہ پوچھتے ہوئے پائے جاتے ہیں پانچ فروری کو کشمیر میں کیا ہوا تھا۔بالخصوص گزشتہ بیس برس میں جوان ہونے والی نسل اس دن کی اہمیت سے بے خبر ہوتی جا رہی ہے ۔1987میں کشمیر میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوا۔ان انتخابات میں مسلم متحدہ محاذ کے نام سے ایسی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے حصہ لینے کا فیصلہ کیا جن کا نعرہ تھا کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے۔کشمیری نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے محاذ کو ایک نئی آواز اور آزادی کی آواز جان کر ان کا ساتھ دیا لیکن انتخابات میں چند ایسی نشستوں پر شدید دھاندلی ہوئی جہاں جوش وجذبہ زیادہ تھا۔اس طرح کشمیری نوجوانوں کا ایک موثرحلقہ اس مقام پر پہنچا جہاں اسے جدوجہد کے کسی انقلابی انداز کی تحریک ملی ۔یوں 1988میں چند غیر منظم نوجوانوں نے عسکری تربیت حاصل کرکے کشمیر
میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔خو دان کشمیری نوجوانوں ،ان کی سیاسی قیادت ،نیم دلی سے ان کی مدد کرنے والوں اور بھارت سمیت کسی کو بھی انداز نہیں تھا کہ در ہ آدم خیل کے فرسودہ پستولوں اور چند ایک روسی ساختہ خودکار رائفلوں سے شروع ہونے یہ سرگرمی کشمیرکی مقبول جنگ آزادی کا روپ دھا رلے گی۔کشمیر میں چند ایک گولیاں کیا چل پڑیں یوں لگا کہ بارود میں چنگاری پھینک دی گئی ہوسال ،ڈیڑھ سال کے عرصہ میں کشمیر کی پوری آبادی ان چند سر پھرے اور انقلاب پسند نوجوانوں کے گرد جمع ہوگئی۔بھارت نے اس تحریک کا زور توڑنے کے لئے 1989دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں لوگوںکو گھروں سے نکال کر قطاروں میں کھڑا کرنا ،خانہ تلاشی اور جامہ تلاشی کے نام پر مرد و خواتین کو ذلیل کرنا شروع کر دیا ۔جسے کشمیریوں نے اپنی عزت اور انا پر حملہ قرارد یا اور وہ زیادہ قوت سے مسلح تحریک کی حمایت کرنے لگے۔حد تو یہ خواتین اپنے پھیرن میں اسلحہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے لگیں۔سرکاری ملازمین سرکاری گاڑیوں میں حریت پسندوں کی نقل و حرکت اور رسد کو آسان بنانے لگے۔اس وقت کے گورنر کشمیر جگ موہن نے ان حالات کی تصویر کشی کرتے اپنی کتاب My Frozen turbulence in Kashmir میں لکھا تھا کہ” کشمیر پر پاکستان کو پرچم لہرا چکا تھا اور یہ بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا تھا مگر میں کشمیر کوبھارت کے لئے بچا کر واپس لایا”بھارت نے کشمیریوں کی اس جدوجہد کو کچلنے کے لئے فوجی کی تعداد بڑھادی۔فوج کو ڈسٹربڈ ایریا زایکٹ کے تحت خانہ تلاشیوں ،گرفتاریوں،بغیر مقدمہ
چلائے نظربند رکھنے ،قتل و آبروریزی سمیت ہر قسم کاا ختیاردیا۔فوج نے اس اختیار کا بے رحمی سے استعمال شروع کیا۔مرہٹے فوجیوں کو فقط یہ بتایا گیا کہ کشمیری بھارت کو چھوڑ اور توڑ کر پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ جو چاہو کرو۔اس دوران کشمیری نوجوان مسلح جدوجہد کو رومنٹسائز کرنے لگے اور ہزاروں کی تعداد میں وادی کے نوجوان نیلم اور لیپہ کی بلند وبالا برف پوش گھاٹیوں سے مظفر آباد میں اترنے لگے۔یہاں اس وقت سردار سکندرحیات خان کی حکومت تھی ۔آزادکشمیر حکومت ایک محدود اختیار اور محدود مینڈیٹ کی حامل ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں کوئی رول ادا نہیں کر سکتی تھی۔حکومت پاکستان بین الاقوامی دبائو سے خوف زدہ تھی ۔پاکستان کو میڈیا بھی مظفر آبا د کی خبر کو سری نگر ڈیٹ لائن سے چھاپتا تھا۔تاکہ پتہ چلے کہ ان سرگرمیوں کا تعلق وادی کی داخلی حدود سے ہے ۔آزادکشمیر میں بیٹھے کسی کمانڈر کی خبر بھی سرینگر ڈیٹ لائن سے چھپتی تھی۔ان حالات میں قاضی حسین احمد مرحوم نے یہ اعلان کیا کہ بھارتی مظالم سے تنگ آکر ہزاروں کشمیری آزادکشمیر آرہے ہیں پاکستان اور آزادکشمیر کی حکومتیں ان کی مدد نہیں کر رہی ۔اس لئے قوم آگے بڑھ کر ان کی مدد کرکے اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٥فروری١٩٩٠ کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یک جہتی کے اظہار کے لئے عام ہڑتال کاا علان کیا۔اس وقت کی وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیربھٹو اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف تھوڑے سے رد و کد کے بعد اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔اس کے بعد یہ دن ایک قومی تہوار کے طور پر منایا جانے لگا۔ یوں یہ دن کشمیریوں کی اس جدید جنگ آزادی کے ساتھ پاکستانی عوام کی یک جہتی اور حمایت کی یادگار اور علامت بن کر ہ گیاہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب