مشرقیات

کچھ جانوروں کو ہانکتے ایک شخص سامنے سے گزرااس کا لباس میلا تھا اور جگہ جگہ ے پھٹا ہوا بھی تھا اللہ کے رسولۖ نے اسے دیکھا تو آپۖ کو بڑی تکلیف ہوئی صحابہ کرام سے جو وہاں موجود تھے آپ نے پوچھا کہ ۔۔ کیا اس کے پاس اور کپڑے نہیں؟۔
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے یں کہ یہ شخص ہمارے ساتھ آیا تھا ہم سب اس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع کے لئے نکلے تھے ۔ یہ غزوہ ہجرت کے تیسرے سال ہوا ۔ غزہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شرکت فرمائی ہو حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک وقت میں اور میرے چند ساتھی ایک درخت کے نیچے اترے ہوئے تھے اتنے میں ہم نے دیکھا کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم لوگ سائے میں بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے اپنی جھولی میں سے ایک ککڑی نکالی اور اسے کاٹ کر آپۖ کی خدمت اقدس میں پیش کیا آپۖ نے وہ ککڑی دیکھی تو ارشاد فرمایا کہ ۔۔۔ تمہارے پاس یہ کہاں سے آئی؟ عرض کیا کہ ۔۔ یا رسول اللہ! ہم اسے مدینہ سے اپنے توشے میں ساتھ لائے تھے یہ موقع تھا کہ وہ شخص سواری کے جانور ہانکتا سامنے سے گزرا ہم اسے اسی کام کے لئے اپنے ساتھ لائے تھے اور سفر کا سارا خرچ ہم نے اسے دیا تھا اس کے میلے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو دیکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے رنجیدہ ہوئے اور دریافت فرمایا کہ ۔۔۔ کیا اس اس کے پاس اور کپڑے نہیں۔
حضرت جابر نے جواب دیا کہ ۔۔ اس کے پاس اور کپڑے بھی ہیں لیکن اس نے گٹھڑی میں باندھ رکھے ہیں۔ آپۖ نے کہا اسے کہو کہ ان کپڑوں کو بدل دے آپۖ کی حکم کی تعمیل میں فوراً میں نے اس شخص کوبلایا وہ آیا تو اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد سنایا اس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سنا تو فوراً اپنی گٹھڑی کھول کر دوسرے کپڑے پہن لئے جب وہ کپڑے پہن کر جانے لگا تو آپۖ نے اس وقت جو کچھ ارشاد فرمایا اس کے ایک ٹکڑے کا مطلب ہے کہ ثابت کپڑوں کے مقابلے میں اس نے چتھڑے لٹکا رکھے تھے کیا اب وہ پہلے سے اچھا نہیں معلوم ہوتا؟۔آنحضرتۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ کسی کے پاس اچھے کپڑے ہوں اور وہ نہ پہنے ۔سنن ابودائود میں میں ہے ایک دفعہ ایک شخص میلا کچیلا لباس پہنے آپۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ۔۔۔ تم سے اتنا نہیں ہو سکتا کہ اپنے کپڑے دھو لیا کرو۔بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ کچھ کاروباری لوگ یا مزدور مسجد نبوی میں داخل ہوئے کپڑے ان کے میلے تھے اور نہ جانے کب سے انہوں نے بدلے نہ تھے پسینے اور گرد کی وجہ سے بدبو دار ہوگئے تھے نتیجہ یہ کہ مسجد میں داخل ہوئے تو ساری مسجد میں بو پھیل گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ ۔۔ نہا کے آتے تو بہتر تھا۔
اسلام صفائی اور ستھرائی کا مذہب ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طہارت اور پاکیزگی کو بہت پسند فرماتے تھے ۔ اگر اللہ نے دیا ہے تو اچھا لباس پہننا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی کا موجب ہوتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات