حقیقت یہ ہے کہ ہم پر معاشی غلامی طاری ہو چکی ہے اور من حیث المجموع ہم کویہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم معاشی طور پر آزاد نہیں رہے جب تک اس حقیقت کو کھلے عام بیان اور تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک ہمیں معاشی معاملات کا حقیقی ادراک نہیں ہو گا اس حقیقت کا ادراک حکومت اور بیوروکریسی کو عملی طور پر ہونا چاہئے اور ایک مقروض ملک کو قرضے کس طرح سینت سینت کر خرچ کرنے اور قرض کی واپسی کا انتظام کر لینا چاہئے اسی پر توجہ سب سے پہلے ضروری ہے جس کے تقاضوں کو سمجھنا اور اس کے لئے حکمت عملی و اقدامات زیادہ مشکل اس لئے نہیں کہ ابتک ہمارا ملک بری طرح مقروض ہونے کے باوجود جس طرح تعیشات کا شکار حکومت سے لیکر عدلیہ تک اور بیورو کریسی و سرکاری ملازمین تک چلے آرہے ہیں سب سے پہلے ہمیں اس سے نکلنا ہوگا کیا یہ کم تعجب کی بات نہیں کہ اس درجے کے ملک کی بیوروکریسی کے اوسط درجے سے بھی کم افسران بھی سرکاری گاڑی اور پٹرول استعمال کرتے ہیں ذرا اندازہ لگائیں کہ اس سے ملک کے بجٹ پر کتنا اثر پڑتا ہوگا اس طرح حکومت اور بڑے بڑے اداروں اور عہدیداروں کا پروٹوکول اور شاہانہ اخراجات کوئی گھڑی ہوئی کہانی نہیں آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں جس میں کمی پر کوئی بھی تیار نہیں اس کا سارابوجھ قومی خزانے اور عوام الناس پر پڑتا ہے عوام قرضوں کابوجھ بھی اٹھاتے ہیں اور مہنگائی کا بھی سب سے زیادہ سامنا عوام ہی کو ہے ۔چارہ گر آمادہ ہی نہیں کہ وہ کچھ خود میں تبدیلی لائیں ایسے میں عوام کامہنگائی سے قریب المرگ ہوجانا ہی بنتا ہے یہ اس طرح کے حالات ہی ہوتے ہیں کہ پھر عوام اٹھ کر عوامی انصاف کا فیصلہ کرتے ہیں جس کی حالیہ مثال سری لنکا کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جوعوامی غیض وغضب کا نشانہ بنے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ اس صورتحال سے بچنے کے لئے ضروریات زندگی کے لئے ہم مقامی وسائل پرانحصار بھی نہیں کر رہے ہیں۔یوں عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ سے ہم بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی کے اپنے اثرات ہوتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر مہنگائی میں اضافے کا باعث ہیں وجوہات کا بھی علم ہے اور اقدامات کی بھی گنجائش ہے اس کے باوجود ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھنے کا من الحیث ا لقوم رویہ وہ عمل ہے جس پرمزید کار بند رہنے کی گنجائش نہیں انفرادی گھر اور خاندان کسی سطح پراپنے اخراجات میں کمی اور حکومتی و ملکی سطح پر کفایت شعاری عملی طور پر اپنائے بغیر ان مشکل حالات کا مقابلہ ممکن نہیں یہ صورتحال ہر سطح پر ذمہ دارانہ کردار کا متقاضی ہے جس کا ادراک کرکے عملی طور پر سخت اورمشکل حالات سے نمٹنے کی عملی تیاری کی جائے اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لئے جائیں اور حالات کو مزید سنگین اور لاینحل ہونے سے روکنے کے لئے سادگی کفایت شعاری ہی اختیار کرنے کی نہیں پیٹ پر پتھرباندھنے کی بھی ضرورت ہے۔
