وزیر اعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک سوچ و حکمت عملی اپنانے اور ملک کے اندر دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے تمام ذرائع ختم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔حتمی فیصلے اے پی سی میں ہوں گے۔پشاورکے دورہ کے موقع پرشہباز شریف دوبارہ یہ بات دہرائی کہ انسداددہشتگردی کے لئے 417ارب روپے وفاق نے خیبرپختونخوا کو دیئے ہیں، پوچھنا چاہتا ہوں کہ417ارب روپے کہاں گئے، سی ٹی ڈی پنجاب 3ارب میں بنی، یہاں 4ارب میں بنالیتے، کے پی کے پاس 417ارب روپے تھے وہ دس سیف سٹی بناتے لیکن ایک بھی نہ بنی۔ ان کا کہنا تھا قوم جواب چاہتی ہے دہشت گرد یہاں کس طرح آئے اور کون انہیں یہاں لایا۔اپیکس کمیٹی کے اجلاس میںدرون خانہ کیاٹھوس اورعملی فیصلے کئے گئے ان تفصیلات اورعملی طور پراقدامات کو عملی صورت دینے میں وقت درکار ہوگا بعض اطلاعات کے مطابق ٹارگٹڈ آپریشن کافیصلہ کیاگیا جبکہ قبل ازیں قومی اسمبلی میں وزیردفاع نے آپریشن ضرب عضب نوعیت کے آپریشن کی ضرورت پر زوردیا تھا ۔ دہشت گری کی حالیہ لہر اور واقعات سے قطع نظر ایک مشکل صورتحال یہ سامنے آئی ہے کہ سابق دور حکومت میںمبینہ طور پر پانچ چھ ہزار طالبان کی واپسی ہوئی ہے جبکہ دوسری جانب کے دعوے کے مطابق ان کی واپسی گزشتہ سال جون میں واپسی ہوئی ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کب آئے حیرت کی بات یہ ہے کہ ان عناصر کوواپسی کا موقع دیاگیا ان کی بغیر ہتھیار اوراہل خانہ سمیت واپسی ہوئی اور واپسی کی باقاعدہ اطلاع متعلقہ تھانہ میں دی جاتی توبڑی حد تک صورتحال پر نظررکھنا ممکن ہوتا یہاں مشکل امر یہ ہے کہ ان عناصر کی واپسی تو ہوئی ہے لیکن ان کو ایک نظم کا پابند رکھنے ان پر نظر رکھنے اور تسلی بخش کردار کے مظاہرے تک محدودرکھنے کے عمل پر توجہ نہ دی گئی جس کے باعث یہ عناصرپھیلنے کے ساتھ دوبارہ قوت پکڑتے گئے جن کے خلاف اب ہدف بنا کر آپریشن کی ضرورت پڑ گئی ہے ہمارے تئیں یہ ہماری پالیسی اور اداروں کی ناکامی ہے کہ ہم نے ایک مرتبہ کانٹوں کی فصل سے اپنی سرزمین صاف کی مگربعد ازاں ان کی واپسی کی غلطی کی گئی اوراب جب وہ دوبارہ سے چیلنج بن گئے توان کی ازسر نو تطہیر کا عمل شورع ہونے جارہا ہے آپریشن کی مخالفت کی گنجائش نہیں لیکن کم از کم قوم کو یہ تو بتایا جائے کہ ان کی واپسی سے صرف نظران کومنصوبہ بندی کے ساتھ صفایا کرنے کے لئے تھی تاکہ اس فتنہ کا سرکچل دیا جائے یاپھر وہ ایسی فاش غلطی تھی جس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑ ہا ہے سوالات تو بہت ہیں اورجہاں سے جواب ملنا چاہئے اورجن کو سوالات کاجواب دینا چاہئے وہاں سے بھی سوالات ہی پوچھے جارہے ہیںپاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی)کے سینئر رہنما سینیٹر رضا ربانی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کو پاکستان میں لانے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اس دہشت گردی کی وجوہات کیا ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آ ج سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کو دوبارہ کون لے کر آیا؟۔ گزشتہ دور میں پختونخوا کو دوبارہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کس طرح کے پی دوبارہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا؟۔ کس نے کہا تھا کہ ان لوگوں نے ہتھیار ڈال دئیے ہیں، یہ ملکی ترقی میں حصہ ڈالیں گے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم سوالات کا ذمہ دارانہ جواب اور کوتاہی کے ذمہ داروں کے تعین کرکے ان کو کٹہرے میں لانے کی ذمہ داری نبھانے کے بجائے عوام کی طرح خود سوال پوچھ رہے ہیں وزیر اعظم کے عہدے کا شخص بھی اگر صرف سوال پوچھنے لگے اور جواب نہ دے سکے یا جواب نہ ہو اور صورتحال سے قوم کوآگاہ کرنے میں تامل کا شکار ہو یا پھرمصلحت آڑے آئے تو پھرآخر قوم کس کو ذمہ دارٹھہرائے۔بدقسمتی سے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں بھی سوال ہی پوچھا گیا کہ خیبر پختونخوا کو گزشتہ دس سالوں کے دوران انسداد دہشت گردی کے لئے 417 ارب روپے دیئے گئے وہ کہاں گئے ان سے یہ یہ کام ہو سکتے تھے ۔ اب سوال پوچھنے اور عوام کو یہ بتانے کا کہ کیا فیصلہ کیاگیا کاسلسلہ بند ہوناچاہئے اب ذمہ داری کاتعین احتساب اور عملی طور پر انسداد کاکام شروع کرنے اور منطقی انجام تک پہنچا کر عوام کویقین دلانے کی ضرورت ہے کہ اب نہ توماضی کی غلطیاں دہرائی جائیں گی اورنہ ہی دہشت گردوں کودوبارہ سراٹھانے دیا جائے گا بلکہ ان کا پوری طرح صفایا کردیا گیا ہے۔
