معروف بزرگ حضرت ابو فضل یوسف بن محمد نے جب سجلما سہ (مقام ) میں قدم رکھا تو مسجد میں اصول دین اور اصول فقہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہنے لگے ۔ ایک مرتبہ عبداللہ بن بسام جو شہر کے امراء میں سے تھے ، مسجد کے پاس سے گزرتے ہوئے کہنے لگا : یہ لوگ کون سا علم سیکھ رہے ہیں ؟
اس کو بتایا گیا : یہ اصول دین اور اصول فقہ کا علم سیکھ رہے ہیں ، جبکہ عوام کا حال یہ تھا کہ وہ علم ظاہری و دنیا وی پر قناعت کئے بیٹھے تھے ۔
عبداللہ بن بسام یہ سن کر کہنے لگا : مجھے تو یوں لگتا ہے کہ یہ شخص ہم پر ایسے علوم مسلط کرنا چاہتا ہے ،جن سے ہم کو واقفیت نہیں ۔
چنانچہ اس نے ابو الفضل کی مسجد بدری کا حکم جاری کیا ۔ ابو الفضل اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور ان کو بد دعا دیتے ہوئے کہنے لگے : تم نے اس جگہ علم کا چراغ بجھا یا ، رب تعالیٰ بھی تمہاری زندگی کا چراغ اسی جگہ بجھائے ۔ اہل شہر کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے نکاح اجالا ہونے کے بعد مسجد میں کیا کرتے تھے ، ایک دن عبداللہ بن بسام سے دوستوں نے کہا: آپ ہمارے ساتھ نکاح کی تقریب میں شرکت کریں ۔ جب صبح ہوئی تو وہ اسی جگہ پر بیٹھ گئے جہاں پر ابو الفضل نے اس کو بد دعا دی تھی ، چنانچہ عبداللہ بن بسام کو صنہاجہ کے ایک قبیلے ملوانہ نے تیروں سے چھلنی کر ڈالا ۔ پھر ابوالفضل نے فاس کا رخ کیااور عقبہ بن دبوس قاضی کے یہاں قیام پذیر ہوئے ، لیکن اس کے ساتھ اہل فاس نے بھی وہ سلوک کیا جو اہل سجلما سہ نے کیا تھا اور ان سے ابن دبوس قاضی نے ویسا ہی معاملہ کیا جیسا کہ ابن بسام نے کیاتھا ، تو ابو الفضل نے قاضی کو بھی بد دعا دی تو انہیں ایک بیماری لگ گئی وہ اس سے ہلاک ہوگئے ۔
کہاجاتا ہے کہ ابوالفضل کو سب سے پہلی ناگواری جو اہل سجلماسہ کی نیاز مندیوں سے پیش آئی ،وہ یہ تھی کہ آپ نے ایک مسجد میں تشریف لے جا کر ایک جگہ نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو ان کو بتایا گیا یہ فلاں کی مخصوص نشست ہے ۔
چنانچہ انہوں نے دوسری جگہ ارادہ کیا تو پھر ایسا ہی کہا گیا تو ابوالفضل نے کہا : یہ جائز نہیں ہے کہ خدا کے گھروں میں اس طرح جگہیں مخصوص کی جائیں ۔ابن ابی قاسم فرماتے ہیں : مجھ سے ابو علی سالم نے کہا: جب ابوالفضل نے سجلماسہ کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہوں نے اس بات کی فرمائش کی کہ میری رہائش کا انتظام ایسے گھر میں کیا جائے جو حمام سے نزدیک اور مسجد سے دور ہو ، تو لوگوں نے اسے قبول نہ کیا اور اس کی وجہ دریافت کی ۔ ابوالفضل نہ کہا : میرا حمام کی طرف نزدیک ہونا میری جسمانی راحت کاموجب ہے تو مجھے اس کی تمنا ہے کہ وہ کم از کم ہو اور مسجد کی جانب قدم اٹھانے میں چونکہ اجر و ثواب کا وعدہ ہے تو مجھے یہ پسند ہے کہ وہ فاصلہ زیادہ سے زیادہ ہو۔
( التشوف الی رجال التصوف:ص،98)
Load/Hide Comments