افغان مہاجرین پالیسی پر نظر ثانی

پشاور میں حالیہ خود کش دھماکے میں درجنوں افراد کی شہادت اور زخمی ہونے کے پس منظر میں منعقدہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں افغان مہاجرین کے حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے افغان باشندوں کی پاکستان آمد کو ریگولیٹ کیا جائے گا، انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے کہا ہے کہ ویزہ ختم ہونے پر افغان مہاجرین کو واپس کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے کیونکہ کئی لاکھ افراد ویزہ لیکر پاکستان آئے لیکن واپس نہیں گئے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کو بھی گرفتار کر کے واپس بجھوا دیاجائے گا، انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں اپیکس کمیٹی نے سمت کا تعین کر دیا ہے، افغانستان کے ساتھ دہشتگردی کے معاملے کو اٹھایا جا رہا ہے، قانون کے تحت رہائش پذیر افغان مہاجرین کو تنگ نہیں کیا جائے گا وہ پاکستان میں رہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اقوام متحدہ کی مصدقہ دستاویزات موجود ہیں، لیکن غیر قانونی طور پر موجود افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہائش رکھنے کا اختیار نہیں، انہیں واپس بجھوایا جائے گا، امر واقعہ یہ کہ افغان مہاجرین کے قیام کے حوالے سے ہماری پالیسی شروع دن سے ہی خشت اول چوں نہد دیوار کج والی رہی ہے، ضیا الحق کے دور میں نام نہاد افغان جہادکے تحت مہاجرین کا جو سیلاب امڈ کر آیا، ضیا الحق کے زبانی حکم پر ان سے کسی قسم کا تعرض نہ رکھنے کی پالیسی کی حوصلہ افزائی کی گئی یہاں تک کہ مہاجرین کے بھیس میں(معدودے چند ہی سہی) سماج دشمن ایسے افراد بھی آئے جنہوں نے کچھ ہی عرصے بعد چوری چکاری، ڈاکہ زنی اور دیگر جرائم کو فروغ دیا لیکن سکیورٹی اداروں نے ان کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی تک نہیں کی، جبکہ ان کی سماج دشمن کارروائیوں سے تنگ آ کر اہل پشاور جب بھی احتجاج کرتے تو ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت انہیں چند دنوں کیلئے کیمپوں تک محدود کر دیا جاتا، ایسا کئی بار ہوا، اس دوران کچھ سرکاری طور پر اختیار کی ہوئی نرم پالیسی اور کچھ بعض اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی سہولت کاری سے ہزاروں افغان مہاجرین نے پاکستانی قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کئے، جس کی مدد سے نہ صرف یہاں جائیدادیں خریدیں بلکہ لا تعداد افغان مہاجرین نے پاکستانی بن کر مختلف ممالک میں روزگار کی تلاش میں جا کر وہاں بھی غیر قانونی حرکات سے پاکستان ہی کو بدنام کیا، جبکہ خیبر پختونخوا میں مقامی لوگوں کے روزگار اور کاروبار پر بھی انہوں نے قبضہ جما کر مقامی باشندوں کے لئے مشکلات پیدا کیں۔انہوں نے اپنی جڑیں مضبوط کر کے عوام کے لئے مسائل میں اضافہ کیا، اس کے علاوہ کلاشنکوف کلچر اور نشہ آور اشیاء کی سمگلنگ سے معاشرے میں منفی رجحانات کو فروغ دینے جبکہ اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری کے ساتھ ساتھ غیر قانونی کرنسی کے کاروبار کو فروغ دینے میں بھی ان کے کردار کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا، ہنڈی کے کاروبار سے بھی پاکستان کی معیشت کو انہوں نے بے پناہ نقصان پہنچایا، مگر بد قسمتی سے مقامی سطح پر مبینہ سہولت کاروں کی وجہ سے ان کی حوصلہ افزائی نے ان کو نہ صرف فائدہ پہنچایا بلکہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی بھی نہ ہونے کے برابر رہی، صوبے کے عوام کے مسلسل اصرار اور افغانستان میں قیام امن کے بعد افغان مہاجرین کی واپسی کے مطالبات سامنے آتے رہے تاہم اس دوران اقوام متحدہ کے ادارے برائے افغان مہاجرین کی بار بار درخواستوں پر مہاجرین کی واپسی میں تاخیر ہوتی رہی، کیونکہ یو این ایچ سی آر کے مطابق افغانستان کے اندر ان مہاجرین کی واپسی کے بعد ان کی آباد کاری کیلئے ضروری اقدامات میں عالمی برادری کی زیادہ دلچسپی نہ ہونے اور ضروری امدادی فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے مشکلات درپیش تھیں، تاہم گاہے گاہے محدود طور پر ان کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا تھا، اس مقصد کیلئے واپس جانے والوں کی آبادکاری اور رہائشی سہولیات کے لئے ضروری مالی امداد بھی دی جاتی تھی لیکن اس سارے کئے کرائے پر پانی پھیرتے ہوئے واپس جانے والے چند روز بعد ہی دوبارہ واپس آکر صوبہ خیبر پختونخوا کی معیشت اور معاشرت پر بوجھ بنتے رہے، آئی جی پولیس معظم جاہ نے ایسے ہی لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان غیر قانونی افغان مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ ان لوگوں کو واپس آنے ہی نہ دیا جاتا، اگرچہ افغانستان کے ساتھ ڈیورینڈ لائن بارڈر پر اربوں روپے خرچ کر کے جو خاردار تار لگائی گئی تاکہ کوئی بھی غیر قانونی طور پر پاکستان کے اندر داخل نہ ہو سکے خاص طور پر مسلح دہشت گرد کارروائیوں کی روک تھام کی جا سکے، تاہم ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں، جن میں کئی مقامات پر خاردار تار کو کاٹ کر پھینک دیا گیا، ایسی صورت میں دراندازی کو روکنے کی تدبیر کارگر دکھائی نہیں دیتی۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کی روشنی میں نہ صرف غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ڈی پورٹ کرنے اور قانونی طور پر مقیم افغانوں کو بھی خلیجی ممالک کی طرز پر اقامہ جیسی پالیسی کے تحت لا کر مقامی باشندوں کی ضمانت کے بغیر رہائش کی اجازت نہ دینے کے حوالے سے کارروائی کی جائے، اور افغانستان کے ساتھ اس معاملے پر سنجیدہ مذاکرات کئے جائیں تاکہ ان غیر ملکیوں کے قیام کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام