3 83

پیسکو اور ڈبلیو ایس ایس پی سے جڑے مسائل

پشتو زبان کے محاورے، روزمرہ اور ضرب المثل ان دنوں بہت یاد آرہی ہیں، آج بھی ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا ہے، مگر جس مسئلے کے بارے میں کالم لکھنا مقصود ہے اس کیلئے ضرب المثل تحریر کرتے ہوئے تھوڑا سا خوف بھی دامنگیر ہے یعنی اگر اصل پشتو الفاظ لکھ دیئے تو خطرہ ہے کہ کہیں کسی جانب سے کوئی فتویٰ صادر نہ کر دیا جائے اس لئے اصل ضرب المثل میں تھوڑی سی تحریف کرتے ہوئے اسے بے ضرر بنانے اور مفہوم ادا کرنے کی کوشش ضروری ہے، تو ضرب المثل یہ ہے کہ کچھ تو اللہ کے امتحان ہوتے ہیں اور کچھ عبدالاؤں (عبداللہ کی جمع) نے جان نکال دی ہے، یہ عبداللہ کتنے ہیں؟ ان کی تعداد کوئی بھی نہیں جانتا، بس ایک ایک کو یاد رکھئے اور گنتے جائیے، گنتی پھر بھی ختم نہ ہو، اس سے پہلے کہ اس لفظ عبداللہ کی وضاحت کی جائے، ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے! واقعہ کے کردار کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر وہ شاید کوئی خلیفہ تھے یا کسی علاقے کا گورنر، رات کو سو جاتے تو ان کا غلام ان کی چارپائی کے قریب رفع حاجت کیلئے پانی کا لوٹا رکھ دیتا اور خود ساتھ والی راہداری میں سو جاتا، تاکہ مالک کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو آواز دے کر طلب کر سکے۔ ایک رات مالک غسل خانے جانے کیلئے اُٹھا تو دیکھا کہ لوٹا خالی ہے، اس نے زور سے آواز دی، یا عبداللہ، یا عبداللہ! آواز سن کر غلام جاگ اُٹھا اور دوڑ کر آیا تو مالک نے لوٹا خالی ہونے کی نشاندہی کی، اس نے معذرت کرتے ہوئے جلدی سے لوٹے میں پانی فراہم کر دیا، مالک نے وضو کیا، تہجد ادا کی اور پھر سوگیا، غلام بہت پریشان تھا، اگلی صبح ناشتہ لگا کر ڈرتے ڈرتے پوچھا مالک میری رات کی کوتاہی پر آپ اب تک مجھ سے ناراض ہیں؟ نہیں تو یہ تم نے کیسے سمجھ لیا؟ نوکر نے کہا، حضور میرا نام آپ نے عبداللہ لیکر پکارا جس سے اندازہ ہوا کہ شاید آپ میرا اصلی نام نہ لیکر ناراض ہیں، مالک نے مسکراتے ہوئے کہا، ایسا قطعاً نہیں ہے بلکہ میں نے تمہیں عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ اس لئے کہہ کر مخاطب کیا کہ میں تب بے وضو تھا اور ایسی حالت میں تمہارا نام جس میں لفظ ”محمد” شامل ہے بغیر وضو کے زبان پر نہیں لاسکتا تھا یعنی بقول منیر نیازی مرحوم
میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے
دیر تک اسم محمد شاد رکھتا ہے مجھے
اب جن ”عبدالاؤں” کا ذکر یہاں مقصود ہے ان کے ناموں کا اس واقعے سے کوئی تعلق تو نہیں مگر یہ اتنے زبردست ادارے ہیں کہ ان کا نام لیتے ہوئے بھی ”باوضو” ہونا پڑتا ہے، پہلا ادارہ تو پیسکو ہے جس کا اصل تو واپڈا ہے جو عوام کیساتھ طویل عرصے سے جو کھلواڑ کرتا آرہا ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے، ہم ایسے سادہ قانون پسند اس سے بے پناہ خوف کھاتے ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے اس ادارے کی جانب سے حکومتی ان احکامات کی دھجیاں اُڑانا ہے جس کا رمضان سے پہلے بڑے دھوم دھڑکے سے اعلان کیا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینے میں بجلی لوڈشیڈنگ کم سے کم رکھی جائے گی اور خصوصاً افطاری اور سحری میں لوڈشیڈنگ بالکل نہیں کی جائے گی ہوتا مگر اس کے برعکس ہے۔ شہر کے اندر بہرحال صورتحال بہتر ہے مگر اس کا دوسرا حل تلاش کر لیا گیا ہے اور وہ یہ کہ کم ازکم گل بہار کالونی کے حوالے سے ہمارے ذاتی تجربات یہ ہیں کہ دن ساڑھے گیارہ بارہ بجے بجلی کی رو منقطع ہو جاتی ہے تو پھر پانچ بجے کے بعد بحال ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ ایک اور ”عبداللہ” کی کارستانی کی صورت نکلتا ہے کہ لوگوں کے گھروں میں پانی کا ایک قطرہ تک نہیں ہوتا، ڈبلیو ایس ایس پی کا ٹیوب ویل آپریٹر پانچ سوا پانچ بجے ایک آدھ گھنٹے کیلئے ٹیوب ویل چالو کر دیتا ہے جس سے قریبی گھروں میں تو پانی کی فراہمی کچھ نہ کچھ ممکن ہو جاتی ہے مگر ہم جیسے قدرے فاصلے پر رہنے والوں کو پھر بھی پانی کی بوند بوند کیلئے ترسنا پڑتا ہے، یہ ٹیوب ویل (سابقہ) عشرت سنیما چوک کے قریب رشید ٹاؤن کی جانب مڑنے والی گلی کے اندر واقع ہے۔ آپریٹر صاحب ایک گھنٹہ کے بعد غائب ہو جاتا ہے یا پھر جان بوجھ کر ٹیوب ویل بند کر دیتا ہے حالانکہ اسے اچھی طرح علم ہے کہ سارا دن بجلی نہ ہونے سے گھروں میں کربلا کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں اور اصولی طور پر اگر دن کے اوقات کے بدلے وہ ایک دو گھنٹے زیادہ ٹیوب ویل چلائے تو عوام مشکل سے نجات پاسکتے ہیں۔
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
مسئلہ صرف پانی کی فراہمی یا عدم فراہمی ہی کا نہیں ہے، اسی ٹیوب ویل سے ان دنوں نہایت گندہ اور بدبودار پانی گھروں میں آرہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ یا تو مین پائپ لائن کہیں سے لیک ہو چکا ہے جہاں سے قریبی نالیوں سے گندہ پانی اس میں شامل ہو جاتا ہے یا پھر مین پائپ لائن سے جڑے نلکوں والے پائپوں میں کہیں لیکج ہے اور جیسے ہی متعلقہ گھر یا گھروں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ اپنے نلکے بند کر دیتے ہیں تو ان گلیوں کا گندہ پانی دوسرے گھروں میں جانا شروع ہو جاتا ہے جو بھی صورتحال ہو متعلقہ عملے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ٹیوب ویل سے جڑے پائپ لائنوں کا معائنہ کر کے اصلاح احوال کی کوشش کرے تاکہ خطرناک بیماریوں کا پھیلاؤ روکا جا سکے کیونکہ ویسے بھی رشید ٹاؤن سے ملحقہ شاہین مسلم ٹاؤن جو حرف عام میں شاہ ڈھنڈ کہلاتا ہے کے اندر بھینسوں کے باڑے ہیں اور وہاں سے گزر کر رشید ٹاؤن کے اندر داخل ہونیوالے بڑے نالے میں ماضی میں پولیو کے جراثیم کی نشاندہی عام سی بات ہے اور اب تو کورونا نے غضب ڈھانا شروع کر رکھا ہے اسلئے ڈبلیو ایس ایس پی کے حکام سے گزارش ہے کہ وہ عشرت سنیما کے قریب واقع ٹیوب ویل سے نکلنے والے مین پائپ کو چیک کریں تاکہ گندہ اور مضر صحت پانی کی فراہمی رک جائے اور آپریٹر کو ہدایت کی جائے کہ وہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ایک دو گھنٹے زیادہ کیلئے ٹیوب ویل چلائے تاکہ عوام کی مشکلات ختم ہو سکیں۔ بقول شیخ سعدی
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی ودرماندگی!

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات