پشاور پولیس لائنز حملہ

پشاور پولیس لائنز حملہ،تحقیقات سے قبل قیاس آرائیوں اور افواہوں کا طوفان

( اے آر بخاری )سال رواں کے جنوری کے مہینے کی 30تاریخ تھی پیر کا دن تھا۔ زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ ملک سعد شہید پولیس لائن میں بھی دو چھٹیاں گزرنے اور دفتروں میں کام کی زیادتی کی وجہ سے رش زیادہ تھا۔ سویلین کی آمد بھی جاری تھی جبکہ پولیس آفیسرز اور جوان بھی معمول کے مطابق ڈیوٹیوں پر موجود تھے کہ نماز ظہر کی ادائیگی کا وقت ہوا اور پولیس اہلکار اللہ کے حضور سر بسجود ہونے کے لئے مسجد میں پہنچ گئے۔ چار سو سے زائد آفیسرز جوان اور شہری نماز کی ادائیگی شروع کرہی رہے تھے امام نے جیسے ہی تکبیرکے لئے صدا بلند کی ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ مسجد کے دروازے اکھڑ گئے، چھت منہدم ہوکر نیچے آگری اور نمازی ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے ۔دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ پولیس لائن میں موجود عمارتیں لرز اٹھیں ،شیشے ٹوٹ گئے۔ دھماکہ کی آواز دور دور تک سنی گئی۔
دھماکہ 1بج کر 17 منٹ پر ہوا ۔پشاور کو ایک بار پھر خون میں نہلانے والوں نے اس بار نشانہ براہ راست پولیس کاسب سے بڑا مرکز چنا تھا۔ پشاورپولیس لائنز جسے سابق ڈی آئی جی اورسی سی پی او پشاورملک سعد کی شہادت کے بعد ان کے نام سے موسوم کردیا گیا تھا کی مسجد میں خود کش حملہ آور نے نمازیوں کو نشانہ بنایا تھا۔دھماکہ کے بعد فی الفور لائن میں موجود اہلکاروں نے امدادی کاموں کا آغاز کردیااور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا جبکہ ملبے تلے دبے افراد کو بھی نکالنے کا آغاز کردیا۔ بھاری مشینری کے استعمال اور 24 گھنٹے کی طویل جدوجہد کے بعد ملبے سے تمام شہیدوں اور زخمیوں کو نکال لیا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق دھماکے میں 100سے زائد افراد کے شہید اور دو سو سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی تاہم بعد ازاں یہ تعداد کم ہو کر 85 بتائی گئی۔ شہید اورزخمی ہونے والوں کی اکثریت حاضر سروس پولیس اہلکار تھے۔
ریسکیو کا عمل ختم ہونے کے بعد سرچ آپریشن اور تفتیش کے عمل کا آغاز ہوا جس میں پولیس حکام کی جانب سے مختلف شبہات ظاہر کئے گئے جن میں بارود کو تھوڑا تھوڑا کرکے پولیس لائن لانے کی بات بھی سامنے آئی لیکن جائے وقوعہ سے ایک چہرے کی کھال ملنے پر سارا فوکس خودکش حملہ کی طرف چلا گیا اور اعلیٰ افسران نے بھی دھماکہ خودکش قرار دیا لیکن اس دوران پولیس اہلکاروں کی اکژیت جو ساتھیوں کی شہادت پر غمگین تھی نے خودکش حملے کو رد کردیا ۔افواہوں کا ایک بازار گرم ہو گیا سوشل میڈیا پر پولیس کو احتجاج کرنے، یونین بنانے کی ترغیب دی جانے لگی ۔کئی مقامات پر پولیس اہلکاروں نے احتجاج بھی کیا۔ ایک طوفان بپا کردیا گیا ۔کوئی دھماکے کے تانے بانے ڈرون سے جوڑنے لگ گیا ۔جبکہ کوئی اسے اپنوں کے سر تھوپنے لگ گیا بعض کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے رقبے پر پھیلے ہال کو خودکش حملے میں اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

مزید پڑھیں:  قومی اسمبلی اجلاس، مہنگی بجلی پیداوار پر توجہ دلاو نوٹس پیش کیا جائیگا