دوستی سے انکار پر قتل

دوستی سے انکار پر 2نوجوان جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے

انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اب بھی ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جنہیں سن کر نہ صرف عقل دنگ رہ جاتی ہے بلکہ شدیدافسوس بھی ہوتا ہے کہ آخر ہمارا معاشرہ کس طرف جارہا ہے۔کیا کسی معاشرے میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ محض دوستی کرنے سے انکار پر کسی کی جان لے لی جائے؟یہ واقعات ایسے افراد کی بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں جن کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی قدروقیمت نہیں بلکہ اپنی جائز وناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے وہ کچھ بھی کرگزرتے ہیں۔رشتہ سے انکار پر خواتین کے قتل ، ان پر تیزاب پھینکنے یا تشدد کے واقعات کی خبریں ہم اکثر سنتے رہتے ہیں تاہم محض اس لئے کسی کی جان لینا کہ اس نے دوستی سے انکار کیا ، یہ ذہنی پسماندگی کی انتہاہے ۔کچھ روز قبل نوشہرہ رسالپورکے علاقہ اسماعیل آبادمیں عوامی نیشنل پارٹی سوشل میڈیا کے ورکرکواسی بناء پر قتل کیا گیا کہ اس نے مزید دوستی جاری رکھنے سے انکار کردیا تھا۔مقتول کو بھرے بازار میں فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتاراگیا۔عینی شاہدین کے مطابق 27سالہ آصف خان بازار سے سودا سلف لارہا تھا کہ ملزم نے اس کا راستہ روکا۔ مقتول بات نہیں کرنا چاہتا تھا جس پر ملزم نے پستول نکال کر بھرے بازار میں اس پر فائرنگ کردی جس سے وہ موقع پر جاں بحق ہوگیا۔ مقتول کے قتل کی دعویداری محمد شاہ آفریدی نامی شخص پر کی گئی ہے جو ارتکاب جرم کے بعد فرار ہوگیا ۔بعدازاں مقتول کے ورثاء نے نعش نوشہرہ مردان روڈ پر رکھ کراحتجاج کیا اور ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔پولیس کے مطابق مقتول اور ملزم کا تعلق رسالپورسے تھا جن کے درمیان دوستی چلی آرہی تھی تاہم کسی بات پر ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے جو بعد میں بڑھ گئے تھے ۔احتجاج کے دوران ورثاء نے پولیس کے خلاف نعرے بازی بھی کی اورکہا کہ پولیس جرائم کی روک تھام میں ناکام رہی ہے ۔آخری اطلاعات تک ملزم گرفتار نہیں ہوسکا تھا۔
رسالپور میں دوستی سے انکار پر نوجوان قتل ہوا تو پشاور میں دوستی نہ کرنے کے تنازعہ پر ایک دوست دوسرے کا قاتل بن گیا۔ کچھ دن قبل تھانہ ناصر باغ کے علاقہ جمعہ خان اراضیات سے پولیس کو جواں سالہ لڑکے کی قتل شدہ نعش ملی تھی جسے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔ اندھے قتل کا سراغ لگانا پولیس کیلئے بھی چیلنج بن گیا تھاتاہم بہت جلد پولیس قتل میں ملوث ملزم کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو گئی۔مقتول کی شناخت احسان اللہ ولد صدر میر کے نام سے ہوئی جس کے بھائی عزت اللہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقتول کے قریبی رشتہ داروں اوران سے رابطہ کرنے والوں کو بھی شامل تفتیش کیا گیا جبکہ مقتول کے موبائل فون کے ڈیٹا پر بھی کام کیا گیا جس کے دوران شک کی بناء پر ملزم یاسر حیات ولد قدرگل کو حراست میں لیا گیا جو مقتول احسان اللہ کاقریبی دوست تھا۔ ملزم اور مقتول ناصر باغ کے نواحی علاقہ بچی کورونہ کے رہائشی تھے۔دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ احسان اللہ اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر کے اسے بے جا تنگ کررہا تھا جس پراس نے رات کی تاریکی میں اس کی جان لی تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ ملزم کا جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کیلئے اسے عدالت میں پیش کیا گیا جسے بعدازاں ریمانڈ مکمل ہونے پر جیل منتقل کیا گیا ۔اس طرح دو دوستوں کی کہانی دردناک انجام تک پہنچی جس میں ایک اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا جبکہ دوسرا جیل چلا گیا۔ ملزم کو اپنے جرم کی سزاء ملے گی یا پھر شاید وہ بری ہوجائے لیکن اس طرح کے واقعات سے نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور بدامنی پھیلتی ہے بلکہ پورے معاشرے میں بدنامی ہوتی ہے ۔ایسے واقعات کے تدارک کیلئے خصوصی طور پر والدین ،اساتذہ اور علمائے کرام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  وزیر داخلہ کی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سے ملاقات،دہشتگردی ختم کرنےکا عزم