پشاور میں قتل

پشاور میں قتل مقاتلے عام ہوگئے

( نعمان جان)پشاور میں جس تیزی سے حالات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ریاست اپنی رٹ تیزی سے کھونے لگی ہے۔ شہریوں کیلئے قانون کو ہاتھ میں لینا ایک عام سی بات بن گئی ہے اور وہ بلاخوف وخطر قانون کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔ موجودہ حالات میں ریاستی اداروں کی ناکامی اور رٹ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں افراتفری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک طرف لوگوں میں صبر و برداشت کا مادہ ختم ہورہاہے تو دوسری طرف گھر گھر اسلحہ کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے خون خرابے کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت اور اداروں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ وہ بھی اس سے بالکل لاتعلق نظر آرہے ہیں۔ حکومتی اور پولیس کی سطح پر جائیداد اور رقم کے تنازعات کے حل کیلئے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں جن سے ان تنازعات پر ہونے والی خونریزی روکی جاسکے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے جائیداد سمیت وراثت اور دیگر مختلف نوعیت کے تنازعات کے حل کیلئے تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں تاہم اس حوالے سے اب بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان اقدامات کے اثرات معاشرے میں کم ہی نظرآرہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پولیس خود بھی مختلف مسائل کا شکار ہے اورجہاں وہ عسکریت پسندوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں وہیں جائیداد ودیگر تنازعات پر بھی پولیس کی جانیں لی جارہی ہیں۔
گزشتہ دنوں بڈھ بیر میں ایسا ہی ایک خونریز واقعہ پیش آیاہے جس میں پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ واقعہ بڈھ بیر کے علاقہ شیخ محمدی بازار میں رونما ہوا جہاں رقم کے لین دین کے تنا زعہ پر فریقین میں خونریز تصادم ہوا اور گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ بھرے بازار میں دو طرفہ فائرنگ سے بھگدڑ مچ گئی تھی اور شہریو ں نے اپنی جانیں بچانے کیلئے دوڑیں لگائیں۔ واقعہ سے متعلق محلہ عبدالخیل شیخ محمدی کے رہائشی محمد طفیل ولد ثمین خان نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں پولیس کو بتایا کہ مقتولین امین ولد نواز خان اور تحسین اللہ ولد یامین ساکنان دیہہ آم ان کے چچااورچچازاد ہیں جو پیدل شیخ محمدی بازارمیں جارہے تھے جہاں ملزمان نورزادہ، سلیم پسران خانزادہ، صاحبزادہ، رویت پسران نورزادہ، عادل ولد اول خان ، سراج، کفایت پسران سلیم ساکنان شیخ محمدی، کرامت ولد امیرزادہ سکنہ سلیمان خیل مسلح کھڑے تھے اور ہمیں دیکھتے ہی نورزادہ نے اپنے بیٹوں کو فائرنگ کرنے کی آواز دی جس پر انہوں نے اپنا اسلحہ نکال لیا اورفائرنگ شروع کردی ۔ مدعی نے بتایا کہ فائرنگ سے وہ بال بال بچ گیا تھا تاہم ان کے چچا امین اور چچازاد تحسین اللہ گولیاں لگ کر شدید زخمی ہوگئے جو بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ پولیس کے مطابق فائرنگ دوطرفہ تھی اور دوسری جانب سے بھی فائرنگ سے صاحب ولد خان زادہ اور کفایت ولد سلیم گولیاں لگ کر جاں بحق ہوگئے۔ فائرنگ کی زد میں آکر سلیم ولد خان زادہ اور 12سالہ راہگیر لڑکابھی شدید زخمی ہوئے ۔ جنہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ واقعہ کی اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پہنچ گئی تھی اور کرائم سین کو سیل کردیا۔ نعشو ں کو پو سٹمارٹم کیلئے خیبر میڈیکل کالج پہنچایاگیا جبکہ پولیس نے شواہد اکٹھے کرکے مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا۔
بعد میں معلوم ہوا کہ واقعہ میں جاں بحق دو افراد امین اور تحسین پولیس اہلکار تھے۔ پولیس کے مطابق امین سابق گورنر شاہ فرمان کی رہائش گاہ کی سیکورٹی پر مامور تھا جبکہ مقتول تحسین اللہ ملک سعد شہید پولیس لائن پشاور میں ڈیوٹی انجام دیتاتھا۔ فائرنگ کے تبادلے میں دونوں پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔ علاقہ مکینوں اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ فریقین میں 10لاکھ روپے کا تنازعہ چلاآرہا تھا جس پر ان کے درمیان ایک روز قبل رات کے وقت آمنا سامنا ہوا اور تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد فریقین میں اشتعال بڑھ گیا تھا۔ پولیس نے بتایا کہ فریقین کی آپس میں رشتہ داری ہے اور وہ ایک ہی علاقے میں رہ رہے تھے ،وقوعہ کے بعد ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان گھر بار چھوڑ کر نامعلوم مقام منتقل ہوچکے ہیں جن کی گرفتاری کیلئے کارروائی کی گئی تاہم پولیس کو تاحال کامیابی نہیں ملی۔
مال وجائیداد پر غاصبانہ قبضہ ہرصورت ایک ناجائز اور غیرقانونی عمل ہے جس کی نہ دین اجازت دیتا ہے نہ ہی قانون۔ بدقسمتی سے پشاور میں دوسروں کی زمینوں پرناجائز قبضہ کے علاوہ لین دین کے معاملات پر دھوکہ دہی اورجعلی چیکس دینے کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔آخر یہ سینہ زوری کبھی نہ کبھی تشدد یا پھر قتل مقاتلے کا باعث بن جاتی ہے اوربجائے اس کے کہ زمین پر قبضہ ہو ، زمین خود اسے اپنے قبضہ میں لے لیتی ہے۔سماجی حلقوں کے مطابق لوگوں کے درمیان جائیداد اور رقم کے تنازعات کے حل کیلئے جرگہ سسٹم کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کومداخلت کرنا ہوگی۔یہ جرگے اگرحکومتی اور ریاستی اداروں کی سرپرستی میں ہوں تو اس کے دوررس نتائج سامنے آسکتے ہیں اور اس سے جائیداد اور لین دین کے تنازعات کوعدالتوں میں لیجانے کی بجائے فوری طور پر حل کئے جاسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  نوڈیرو ہاؤس صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار