رائیگاں جائے نہ محسن کبھی معیار ہنر

وقت کس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے کہ احساس تک نہیں ہوتا ‘چالیس سال سے بھی ادھر کا قصہ ہے جب میرا تبادلہ کوئٹہ ریڈیو سٹیشن پر ہوا تھا اور وہاں کے ادبی ماحول میں خود کو سمانے کی کوشش کر رہا تھا ‘ ان دنوں ایک ادبی تنظیم”قلم قبیلہ” کی بازگشت سنائی دیتی تھی ‘ اس کی سرپرستی گورنربلوچستان جنرل رحیم الدین کی اہلیہ ثاقبہ رحیم الدین کرتی تھیں ‘ جبکہ عطا شاد مرحوم کی نگرانی میں چلنے والے ادارے بلوچستان آرٹس کونسل کے ہال میں بھی بہت سے ادباء و شعراء ہر ہفتے ادبی تنقیدی محفلوں کا اہتمام کرتے جس میں وہاں کے نامور اہل قلم کے ساتھ نو آموز بھی شامل ہوتے ‘ ریڈیو میں میری ساتھی ار روم میٹ عبیدہ اعظم نے مجھے بھی ترغیب دی کہ ان محفلوں میں شامل ہوجائوں اس دوران مجھے کالج میگزین اور نوجوانوں کے پروگرام دیئے گئے تو مختلف کالجوں کے کئی ایسے نوجوانوں سے رابطہ بڑھا جن کو ادب و شعر سے لگائو بھی تھا اور ادبی سرگرمیوں میں دلچسپی بھی رکھتے تھے ان میں کئی کے نام اب ذہن سے محو ہو چکے ہیں ‘ البتہ سرور جاوید(بعد میں سول سروس سے وابستہ ہوا) ‘ ڈاکٹر منیررئیسانی اور محسن شکیل بطور خاص یاد رہ گئے ہیں ‘ ان کی دلچسی دیکھ کر ہم نے ایک الگ تنظیم رائٹرز سکل کے نام سے بنائی جس کے پلیٹ فارم نے کئی نوآموز لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی۔ اس دور میں بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے سربراہ ڈاکٹر مجتبیٰ حسین(مرحوم) مشہور ادیب ‘ شاعر اور ریڈیو پاکستان کراچی پرتعینات سلیم احمد کے بھائی پروفیسر شمیم احمد ‘ حکومت بلوچستان کے سیکرٹری مالیات کی اہلیہ شبنم شکیل جیسی ہستیاں بھی ہمارے پاس ریڈیو پروگراموں میں شمولیت کرتیں ‘ خود ریڈیو پاکستان کے ہمارے ساتھیوں میں ظفر نیازی مرحوم(چو کور پہیہ) عابد رضوی اور دھیمے لہجے کے باکمال شاعر مرحوم اثر جلیلی ادب وشعر کو فروغ دے رہے تھے ‘ آج کے مشہور اینکر اوریا مقبول جان بھی اسی زمانے میں وہاں تھے اور ادب میں اپنا حصہ ڈالا کرتے تھے ‘ اور بھی بہت سے نامور لوگ کارادب سے وابستہ تھے مگر ان کے نام ذہن سے محو ہوچکے ہیں گزشتہ روز ہمدم دیرینہ عزیز اعجاز گھر تشریف لائے تو محسن شکیل کا مجموعہ”کچھ عشق کیا” بھی ساتھ لائے اور تاکید کی کہ کتاب ملنے کی رسید فون کرکے محسن شکیل کو ضرور دیدوں ‘ میں نے اس کام پر چار پانچ روز بعد عمل کیا دراصل میں کتاب پر تبصرے کی صورت میں رسید دینا چاہتا تھا لیکن ہوا یوں کہ کچھ دیگر موضوعات نے اجازت ہی نہیں دی کہ کتاب پڑھتا اور پھر اس پر تبصرہ لکھ کر بطور رسید پیش کر سکتا ‘ تاہم اتنے دن محسن شکیل کا سراپا آنکھوں میں ضرور گھومتا رہا اور روہ دن یاد آگئے جب ہم سب رائٹرز سرکل کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے ‘ محسن شکیل ایک وجیہہ صورت نوجوان کی شکل میں اب بھی یادوں میں رہتا ہے ۔
اپنے شعری سفر میں محسن شکیل کس کس پڑائو سے گزرا ہے جو ظاہر ہے ہر شاعر نہ صرف کلاسیکی شاعری بلکہ جدید حسیات پر مبنی تازہ کاروں کے فکری مطالعے سے خود کو مہمیز کرکے آگے بڑھتا ہے ‘ تاہم ن ۔ م ۔ راشد جیسے نابغہ کے فکری اثاثے سے محسن شکیل نے بھر پور استفادہ کیا ہے اس حوالے سے راشد کے مشہور کردار”حسن کوزہ گر” کو شعری قالب میں جس خوبصورتی اور چابکدستی سے ڈھالا ہے وہ قاری سے بطور خاص مطالعے کا تقاضا کرتا ہے
کوئی تدبیر رد قتال بشر اے حسن کوزہ گر
کچھ نہیں بن سکا چاک پر گھوم کراے حسن کوزہ گر
بابل ونینوا ‘ میرا شہر نجف ‘دجلہ و کربلا
گھومتے ہیں سبھی تیرے اس چاک پر اے حسن کوزہ گر
عراق کے حوالے سے لکھی گئی یہ غزلیہ نظم یا نظمیہ غزل ‘ جوبھی اسے سمجھا جائے ‘ اپنے اندر عراق کی بربادی کی داستان لئے راشد کے حسن کوزہ گر کے کردار میں ایک نوحہ ہی بن کر سامنے آتی ہے ‘
وقت کا فیصلہ کیا ہوا کیا نہیں ‘ شہر بغداد کو
جانتے ہیں سبھی لگ گئی ہے نظر اے حسن کوزہ گر
شاعر کا کام ایک حساس قلم کار کی حیثیت سے معاشرے میں امید کی جوت جگانا ہوتا ہے ‘ مایوسی کے گھپ اندھیروں میں وہ روشنی کا استعاری بن کر ناامیدی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کوشکست دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
تمام شہر ہے تاریکیاں بچھانے کو
اور ایک میں ہوں برابر دیا جلانے کو
مجھے نہ توڑ کے جائو کہ میں وہی پل ہوں
ملا تھا جو تمہیں بستی نئی بسانے کو
عطا شاد بلوچستان کی سرزمین کا ایک ایسا شاعر تھا جس نے اپنے معاشرے کواپنے قلم کے ذریعے امید کی روشنی بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ‘ بلوچستان کی نئی نسل عطا شاد کے کلام سے جہاں امکانات کی نئی جہتیں تلاش کرتے ہیں وہیں اسے کھلے دل سے خراج عقیدت پیش کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے ‘ خود عطا شاد نے کہا تھا
کوہساروں کی عطا رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہوا دریا بولے
اسی دھیمے ‘ میٹھے لہجے کے شاعرعطا شاد کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے محسن شکیل نے ان کے نام سے پوری غزل کہہ دی ہے
اس وادی بولان میں تہذیب وحسن کے
شاعر بہت مگر ہے عطا شاد عطا شاد
محسن شکیل نے ہیئت کے حوالے سے تجربات سے بھی گریز نہیں کیا اور علاقائی الفاظ کو ردیف کے طور پر باندھ کر خوبصورت شاعری تخلیق کی ہے ۔
کسی جانب چراغ دل یہاں بجھتا ہوا نئیں
مری بابت دیا لیکن کوئی رکھا ہوا نئیں
تہہ محراب ظلمت ہوں ازل سے میں فروزاں
سحر کے طاق پر ہی میں فقط رکھا ہوا نیئں
نیں کے متبادل نئیں کے علاقائی لہجے سے محسن شکیل نے جس چابکدستی سے مصرعوں کی بنت کی ہے وہ توجہ نہیں طلب ہے ‘ اسی طرح ان کی نظموں میں بھی ان کی شاعری کا حسن اجاگر ہوتا ہے بلکہ وہ غزل کے ساتھ ساتھ نظمیہ شاعری پربھی اپنی فنی گرفت کا احساس دلاتے ہیں نظم برف گرتی نہیں نے مجھے کوئٹہ کے اس ماحول میں پہنچا دیا تھا جسے چھوڑے ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ ہو چکے ہیں اور برف سے بنتی تصویروں نے پرانی یادیں روشن کر دی ہیں کوئٹہ کابلوچستان آرٹس کونسل ہر سال برفباری کے بعد برف کے مجسمے بنانے کا مقابلہ منعقد کراتی ہے جس میں مجسمہ سازی کے شوقین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
برف گرتی نہیں اب مرے شہر میں
جب سے چاہا تراشیں کچھ اس کا بدن
رت مخالف ہوتی
بارشیں کھو گئیں
ابر آتے نہیں
آرزو اس کوچھونے کی غارت ہوئی
اس دور کا اپنا ایک شعر بھی یاد آگیا
برف کے بت ہی بنانے میں رہی وہ منہمک
اور میں سردی کی شدت سے ٹھٹھر کر مر گیا

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات