”حیات شیرپاؤ۔۔سیاست سے شہادت تک”

شہید وطن جناب حیات محمد خان شیرپاؤسال 1937ء کو ضلع چارسدہ کے گاؤں شیرپاؤ میں بہت بڑے زمیندار اورتحریک پاکستان کے سرکردہ سیاسی رہنماء غلام حیدر خان کے ہاں پیدا ہوئے ۔حیات محمد خان شیرپاؤ نے ابتدا ئی تعلیم چارسدہ میں حاصل کرنے کے بعداسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کی ۔ زمانہ طالب علمی میں بھی وہ طلباء کے مسائل حل کرنے کے لئے سرگرم عمل رہے تعلیم سے فراغت کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ انہوں نے عملی سیاسی زندگی کا آغاز پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کیا اور سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدارتی انتخابات کے موقع پروہ آمریت کی بجائے پائیدارجمہوریت کیلئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حمایت یافتہ رہے۔ 1967ء میں جب اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹونے معاہد ہ تاشقند پراختلافات کی بنا پر ایوب خان کابینہ سے استعفیٰ دیا اور ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا تو صوبہ سرحد میں مجوزہ نئی سیاسی جماعت کی قیادت کے لئے ان کی نظر انتخاب نوجوان سیاستدان جناب حیات محمد خان شیرپاؤ پر پڑی اور انہوں نے حیات محمد خان شیرپاو کو نئی سیاسی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ چونکہ جناب حیات محمد خان شیرپاؤ پہلے سے ہی ایوبی آمریت کے خلاف برسر پیکار تھے لہذا انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت قبول کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور پارٹی کے بانی رکن کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت نئی سیاسی پارٹی کے قیام کے لئے ابتدائی سرگرمیوں میں وہ بھٹوکے ساتھ رہے ۔ لاہور میں پارٹی کا تاسیسی کنونشن منعقد ہوا تو نئی پارٹی کا نام پاکستان پیپلز پارٹی رکھا گیا اور جناب حیات محمد خان شیرپاؤ پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1968ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے زیر قیادت پیپلز پارٹی کے
پلیٹ فارم سے ایوبی آمریت کے خلاف بھر پور ملک گیر تحریک شروع ہوگئی جس کے دوران حیات شیرپاؤ ہر مرحلے پر ذوالفقار علی بھٹوکے شانہ بشانہ رہے اس دروران انھیں کئی بار ریاستی تشدد کا سامنا کرناپڑا۔وہ ذوالفقار علی بھٹوکے ہمراہ ڈی پی آر کے تحت پہلے پشاور جیل اور پھر بہاول پور جیل میں نظر بند کر دیے گئے لیکن وہ آمریت کے آگے نہ جھکے اورنہ بکے۔ 1968ء ہی میں حیات محمد خان شیرپاؤ کے آبائی گاوں شیرپاؤ (چارسدہ) میں پیپلز پارٹی صوبہ سرحد کا کنونشن منعقد ہوا جس میں حیات محمد خان شیرپاؤ کی بحیثیت پارٹی کے صوبائی صدر کی توثیق کی گئی اور پارٹی کے دیگر صوبائی عہدیداروں کا انتخاب بھی عمل میں لایا گیا۔ کنونشن کے بعد بھٹو نے حیات شیرپاؤ کے ہمراہ صوبہ سرحدکے مختلف اضلاع کا دورہ کیا ۔ڈیرہ اسماعیل خان کے میونسپل پارک میں ان کے جلسہ عام پرنہ صرف فائرنگ کی گئی بلکہ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال بھی کیا گیا لیکن ذوالفقار علی بھٹواورحیات محمد خان شیرپاؤ سٹیج پر ڈٹے رہے انہوںنے آمریت کے سامنے سر جھکانے کی بجائے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومتی تشدد کا مقابلہ کرنے کے بعد بھٹو اور حیات شیرپاؤ نے پشاور کے شاہی باغ میں جلسہ عام سے خطاب کیا اور اس طرح ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک عروج پر پہنچ گئی اس ابھرتی ہوئی تحریک کو دبانے کے لئے جنرل یحیٰ خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ مارشل لاء کے دوران بھی عوامی تحریک جاری رہی اور عوامی دباؤ پر بالاآخر جنرل یحیٰ خان نے 1970ء میں عام انتخابات کردیے مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی اور سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جب بھٹو کو اقتدار سونپا گیا تو انہوں نے حیات محمد خان شیرپاؤ کو صوبہ سرحد کا گورنر مقرر کر دیا ۔ وہ صوبہ سرحد کی تاریخ میں سب سے کم عمر گورنر تھے ۔ حیات شیرپاؤ نے 1970ء کے انتخابات میں خان عبدالقیوم خان کو شکست دے کر پشاور سے سرحد اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ 1974ء میں جب صوبہ سرحد میں تخریب کاری اور بم دھماکے عروج پر تھے اور امن وامان کی صورتحال ابتر ہوتی چلی گئی تو حالات کو معمول پر لانے کے لئے اُنہیں صوبے کا سینئر وزیر مقرر کردیا گیا۔ سینئر وزیر کی حیثیت سے عوام کا اعتمادبحال کرنے اورمستقل قیام امن کیلئے صوبے بھرکے دورے شروع کئے۔اپنی ولولہ انگیزسیاست کی بدولت انتہائی قلیل عرصے میں وہ ہرمظلوم، ہرکسان، ہر مزدور اور ہر غریب کی آواز بن کرانکے دلوں میںبسنے لگے۔اُن کی ولولہ انگیز قیادت اوربہترین طرزسیاست مخالف سیاسی پارٹیوں کیلئے مستقل خطرے کا پیغام بننا شروع ہوا۔اوریہی عمل اُن کی موت کا پیغام لیکر اُن کی شہادت کا باعث بنا۔ 8فروری 1975ء کو حیات شیرپاؤ کو پشاور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے طالب علموں کی انجمن کے نو منتخب عہدیداروں کی حلف برداری کی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔
وہ پروگرام کے مطابق8فروری کی دوپہر سول سیکرٹریٹ سے پشاور یونیورسٹی کے لئے روانہ ہوئے جب وہ تہکال پایاں کے قریب سڑک کی دوسری طرف اُن کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ سے اُن کا آخری بار اُن کا آمنا سامنا ہوا اوریوں یہ اُن کی آخری خاموش ملاقات تھی۔
ہسٹری ڈیپارٹمنٹ میںدوران خطاب حیات محمد خان شیرپاؤ دھماکے میں شہید ہوگئے۔اور یوں وہ دہشت گردی کے نتیجے میں تاریخ کے پہلے شہید قرار پائے ان کی شہادت پر پورا صوبہ سرحد سراپا سوگوار تھا ۔ لاکھوں افرادپرمشتمل یہ ایک تاریخ کا بڑا جنازہ سمجھا جاتاہے۔عوامی خدمت اور سیاست میں مصروفیت نے انہیں گھر بسانے کا موقع نہیں دیا بھٹو اور حیات شیرپاؤ شہید کے ادھورے مشن کی تکمیل کیلئے آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے تمام تر خطرات اور مشکلات کے باوجود پارٹی کا جھنڈا تھام کر ادھورے مشن کی تکمیل کا مقصد قبول کرتے ہوئے عوامی سیاست کا آغازکیا اور یوں آج وہ بھی عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔ ان کے صاحبزادے سکندر حیات خان شیرپاؤ نے اپنے ہردلعزیزچچا اوروالد کے نقش قدم پر چل کر نوجوان قیادت کی حیثیت سے سیاسی عمل میں اپنے والد کا ساتھ دیکر سیاست میں نئی روح ڈال دی۔حیات محمدخان شیرپائو اپنے دوراقتدارمیں بیش بہاء ترقیاتی کام کرنے کی بدولت وہ آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ حیات آباد ٹائون شپ ، شیرپائو ہسپتال کا قیام ، صوبے اور بالخصوص پشاورکو سوئی گیس کی سپلائی ‘صوبے کے دور دراز علاقوں کو بجلی کے بڑے بڑے منصوبے دینا اسلام آباد میں اچھی پوسٹوں پر پختونوں کو بھرتی کرنا اوراس جیسے دوسرے بڑے میگا پراجیکٹس ان کے مرہون منت ہے۔اگر زندگی نے وفا کی ہوتی تو پختون سرزمین کی تقدیر کچھ اور ہوتی یہاں کے عوام ترقی اور خوشحالی کے مزے لوٹتے اپنے وسائل پر اپنا اختیار پاکر یہ صوبہ ترقی اور خوشحالی کی نئی منزلیں طے کرتے ہوئے دکھائی دیتا امن اور سکون سب کا مقدر ہوتادشمن نے صرف حیات محمد خان کو شہید نہیں کیا بلکہ ایک بہترین سیاسی عہد ایک مضبوط عوام دوست نظریے کاقتل کیا پختون سرزمین پرامن ترقی اور خوشحالی کا قتل کیا ایک سوچ اور ایک مضبوط آواز کا قتل آج وہ ہم میں نہیں مگر انکی عوام سے بے لوث محبت انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں