موت کے آگے سب ہارے

کہنے کو تو یو ں جنرل ضیاء الحق بھی ایک آمر تھا ، ظاہر ہے کہ آمر کے کرتوت و فعل کی نہ حمایت کی جا سکتی ہے اور نہ وہ کبھی قوم کا ہیر و کہلانے کے لائق ٹہرا یا جا سکتا ہے تاہم اس کے باوجو د اس کا مجموعی کر دار اس کے لیے کہیں نہ کہیں نر م گو شہ پیدا کر دیتا ہے ، چنانچہ سیاسی طور پر جنرل ضیاء الحق سے اختلا ف کرنے والوں کی ضیاء الحق کے اقتدار میں بھی تعداد موجو د تھی اب بھی تنقید کر نے والو ںکی تعداد موجو د ہے لیکن جنرل پر ویز مشرف کے کرتوت ایسے رہے ہیںجس نے اپنے اقتدار کی خاطر ملک کی اقدار کو پست ترین گہرائیو ں میں ڈھا دیا اور پاکستان جس درجے پر آپہنچا ہے وہ سب جنرل پرویز مشرف کاکیا دھر ا ہے ۔ مشرف کا نا م ایک بدترین حکمر ان کے طور پر تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے ، جیسا کہ سو فی صد کوئی رائے کبھی قائم نہیں ہوئی ہے اسی طر ح جنرل پر ویز مشرف کے آٹے میںنمک کے برابر چاہنے والے آج بھی موجود ہیںجوپوری ڈھٹائی سے اس کے گن گا رہے ہیں جیسا کہ ایم کیو ایم کے مقبول لیڈر خالد مقبول نے کہا کہ اگر پرویز مشرف کو کر اچی لاکر دفنایا گیا تو پورے اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیاجا ئے گیا ، خالد مقبو ل ایک ایسی سیاسی جما عت کے لیڈ رہیں جو آج بھی یہ دعویٰ رکھتی ہے کہ اس کے اجداد نے پاکستان بنایا ، یہ سچ ہے کہ یو پی ، بہار ، سی پی کے مسلمانو ں نے پاکستان کی تشکیل میں اہم ترین کر دا ر ادا کیا جو یقینی طور پر قابل رشک ہے ، کیا خالد مقبول وضاحت کر پائیں گے جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کو جس نہج پر لا کھڑا کیا کیا پاکستان بنانے کا مقصد یہی تھا ، یا پھر جن کے اجداد یا خود ان کا ان علاقوں سے تعلق رہا ہو جہاں سے وہ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور خود کو مہا جر کہلا ئے کیا ان کا کسی قسم کا کر دار مقام اولیٰ رکھتاہے ، کیا یہ درست نہیں تاریخ یہ سوال بھی پوچھتی ہے کیا ڈاکٹر عافیہ صدیقی اسی طبقہ سے تعلق نہیں رکھتی جس کی نمائندگی کا ادعا خالد مقبول کرتے ہیں ، جس کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جا تا ہے کہ مشرف نے اسی طر ح عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا جس طرح دیگر پاکستانیو ں کو وہ اپنی کتاب میں امریکا کے حوالے کرنے اعتراف کر چکے ہیں کیا عافیہ کے لیے ایم کیو ایم کے لیڈروں کا آواز بلند کرنا نہیں بنتا تھا ، پر ویز مشرف کے دنیا سے چلے جا نے پر مختلف طبقوں کی جانب سے رائے آرہی ہے کوئی ان
کے کر دار کو سراہا رہا اورکوئی ان پر تنقید کررہا ہے مگر جو حقائق ہوتے ہیں انھیں سورج کوہتھیلی سے نہیں چھپایا جا سکتا ویسے ہی تاریخ کے اوراق کو گم نہیں کیا جا سکتا ، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ12اکتوبر 1999کو شب خون ما ر کر پرویز مشرف نے پاکستان کے آئین کی دھجیاں بکھیر تے ہوئے عوام کے مینڈیٹ کو تباہ وبرباد کردیا تھا ، ایک مرتبہ نہیںدو مرتبہ آئین شکنی کی ۔کہا یہ ہی جا تا ہے کہ جب کوئی دنیا سے گزرجائے تواس کا معاملہ اللہ کے سپر د ہوجا تا ہے ، گویا اب پرویز مشرف اپنے تما م اعمال سمیٹ کر اللہ کے حضور پہنچ گئے ہیں اللہ سے اس عظیم کوئی دوسرا عادل نہیں ہے نہ ہو سکتا ہے ۔ تاہم معروف شخصیات کو اچھے بر ے الفاظ سے یادرکھا جا تا ہے چنانچہ پرویز مشرف کے انتقال پر بھی ان کو مختلف حلقوں کی جانب سے یا د کیا جا رہا ہے ، چنا نچہ عوام کا دھیا ن اس جانب تھاکہ مسلم لیگ ن خاص طور پر میاںنو ا زشریف کا کیا ردعمل ہو تا ہے ، یہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے کہ اگر دل کی گہرائیوں سے معاف نہ کیاجائے تو معافی دینے والا ساری زندگی ضمیر کا قیدی بن کررہ جاتا ہے ، 2000ء کے انتخا بات کے بعد نو از شریف نے کہہ دیا تھا کہ وہ انتقامی جذبہ نہیں رکھتے اگر مسلم لیگ ن کو پرویز مشرف کے ذریعے پی پی کے ساتھ مخلو ط حکومت کے لیے حلف اٹھا نا ہو گا تو مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی حلف پرویز مشرف کے ذریعے لے لیں گے ، کیو ں کہ قومی مفادات ذاتیا ت سے بلند تر ہوتے ہیں پھر پی پی کی مخلو ط حکومت میں مسلم لیگ ن کے وزراء نے پر ویز مشرف کے ذریعے حلف اٹھایا ، اب دیکھا جائے تو سب سے بہتر انداز میں پرویز مشرف کے انتقال پر میا ں نو از شریف نے تبصرہ کیا انھوں نے اپنے ٹویٹ میں صرف یہ تحریر کیا کہ انا للہ وانا الیہ راجعون ، یہ ہی سب سے بڑی حقیقت ہے ۔اب مرحوم حساب کتاب کے
مر حلے میں پہنچ گئے ہیں تاریخ کے اوراق اپنی جگہ باقی رہتے ہیں جن سے چشم پو شی نہیں ہو سکتی ، البتہ پر ویز مشرف کی زندگی پر نظرڈالی جائے تو یہ بھی سچائی سامنے آتی ہے کہ دنیا میں بھی عذاب کا عمل رونما ہو ہی جا تا ہے پر ویز مشرف ایک ایسی منفرد اور لا علا ج مرض جس کو املائلوئیڈوسس Amyloidsisکہا جا تا ہے ۔ مرحوم ایک سال سے اس مرض کی شدت میں مبتلا تھے ، اس بیما ری کو عربی زبان میں ” عذاب” کہا جا تا ہے ۔ یہ ایسی سنگین بیما ری ہے کہ جس میں جسم کے تمام عضو اور ٹشوز میں املالوئیڈ نا می مہلک پروٹین کی تشکیل ہو تی رہتی ہے جس کی وجہ سے جسم کا ہر اعضاء مفلوج ہو کررہ جا تا ہے حتٰی کہ کھانے پینے سے بھی محروم ہو جا تا ہے دل ، دما غ گردے ،تلی ، پھیپھڑے سب بیکا ر ہو جا تے ہیں ، یہاں تک کہ جلد ہڈیوں سے پیو ستہ نہیں رہ پاتیں لٹک جاتی ہے مریض ایک گلا س پانی تک اٹھانے کی طاقت سے محروم ہو جا تا ہے ۔ وہ طاقت بھی نہیںرہ پا تی جب کراچی میں سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی آمد پر پرویز مشرف نے اپنی طاقت کا مظاہر ہ مکّے دکھا دکھاکرکیاتھا ، مرحوم نے آخری عمر بڑی دردناک گذاری ہے کیو ں کہ وہ کپڑے تک بدلنے کی سکت سے بھی محروم ہو چکے تھے ، جب سپریم کو رٹ کے حکم پر ان پر غداری کا مقدمہ چل رہا تھا تب وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے پھر لو ٹ کر نہیںآئے چنانچہ ان کو 2016میں عدالت نے مفرور قرار دیا ، عمر ان خان نے نواز شریف سمیت کئی مفرور وں کو ملک واپس لانے کی سعی کی مگر پر ویز مشرف کو کلی طورپر بھلابیٹھے رہے ، چیف جسٹس پشاور ہائی کو رٹ جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں غداری کے مقدمے کی سماعت کر نے والی اسپیشل عدالت نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے مرحوم پر ویز مشرف کو تین مرتبہ سزائے موت کا حکم سنایا تھا ، جو پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ قرار پایا ، آج وقار سیٹھ دنیا میںنہیںرہے وہ بھی ابدی نیند سور ہے ہیں ، پرویز مشرف بھی اسی مقام پر چلے گئے ہیں وقار سیٹھ بھی اپنے اعمال لے گئے ہیں اور پرویز مشرف بھی اعمال نا مہ ساتھ لے گئے ہر انسان نے صر ف اعمال نامہ ہی لے جانا ہے ، بادشاہت اٹھاکر نہیں لے جا نا اب پر ویز مشرف کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہا تھ میں ہے وہ ہی عادل ہے وہی عدل کی قوت ہے ، اوربس ۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان